کوئٹہ میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے احتجاج جاری

150

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے احتجاج کو 3701 دن مکمل ہوگئے۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے چیئرمین حبیب طاہر کی سربراہی میں ایک وفد نے کیمپ کا دورہ کیا۔

وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے اس موقعے پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ گذشتہ سالوں سے بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیاں تشویشناک صورتحال اختیار کرچکی ہے، بلوچ اسیران کے حراستی قتل کے حوالے سے حکومتی سطح پر وقتاً فوقتاً بیانات آتے رہے ہیں جن میں سے چند ایک کا مختصراً احاطہ کیا جارہا ہے؛ سابقہ حکومتی نمائندوں کی جانب سے بلوچ لاپتہ اسیران کے حراستی قتل کا کبھی اعلانیہ تو کبھی دبے الفاظ میں اعتراف جرم کیا گیا۔ سابقہ دور حکومت کے وزیر داخلہ رحمٰن ملک جوکہ بلوچ لاپتہ اسیران کے حراستی قتل کے ذمہ دار اداروں، ریاستی ڈیتھ اسکواڈ کے سول ہیڈ تھے، کا بلوچ لاپتہ اسیران کے سنگین مسئلے پر پے درپے بیانات ریکارڈ پر موجود ہیں۔ انہوں نے اپنے دور حکومت میں کوئٹہ کے دورے کے دوران ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کے بعد پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ بلوچستان میں عسکری و سیاسی قوتوں کے خلاف بھرپور ڈنڈا چلایا جائے گا، رحمٰن ملک کے اس اعلان کے بعد بلوچ لاپتہ اسیران کی تشدد زدہ لاشیں ملنا شروع ہوئیں اور چند ماہ میں سینکڑوں بلوچ اسیران کی مسخ شدہ لاشیں پھینکی گئی۔

ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ رحمٰن ملک نے دعویٰ کیا تھا کہ بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے ایک منصوبہ ترتیب دیا گیا اور کئی لاپتہ افراد بازیاب ہوئے ہیں۔ لیکن ہرکوئی جانتا ہے کہ بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی صرف مسخ شدہ لاشوں کی صورت میں ہورہی تھی جبکہ یہ تسلسل اب بھی جاری ہے۔