وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاج کو 3698 دن مکمل ہوگئے، بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پجار کے رہنماء ابرار برکت بلوچ، مہیم خان بلوچ اور دیگر افراد نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کے منشور کے شِق نمبر 11 کلاز نمبر 2 میں ایسے شخص کو جس پر کوئی فوجداری مقدمہ عائد کیا جائے اس وقت تک بے گناہ سمجھے جانے کا حق ہے جب تک کہ اس پر کھلی عدالت میں قانون کے مطابق جرم ثابت نہ ہوجائے اور اسے اپنی صفائی پیش کرنے کا پورا موقع اور تمام ضمانتیں نہ دی جاچکی ہو کسی ایسے فعل کو یا کوتاہی کی بناء پر جو ارتکاب کے وقت ملکی یا بین الاقوامی قوانین میں تعزیری جرم شمار نہیں کیا جاتا ہے، کسی تعزیری جرم میں ملوث نہیں کہا جائے گا اور نہ ہی اسے کوئی ایسی سزا دی جائے گی جو جرم کے ارتکاب کے وقت کی مقرر کردہ سزا سے زائد ہو۔ کلاز نمبر 4 کے تحت کسی شخص کو غلام یا لونڈی بناکر نہ رکھا جاسکے گا، غلامی اور بردہ فروشی چاہے اس کی کوئی بھی شکل ہو ممنوع ہوگی۔ کلاز نمبر 5 کے مطابق کسی شخص کو جسمانی اذیت یا ظالمانہ انسانیت سوز یا ذلت آمیز سزا نہیں دی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان بھر سے اغواء کیے جانے والے افراد کی تعداد ہزاروں میں ہے، بلوچ اسیران نہ تو دہشت گرد ہیں اور نہ ہی مجرم بلکہ وہ ریاست کے درمیان جاری معرکہ آرائی کے دوران جبری اغواء ہونے والے جنگی قیدی ہیں، پاکستان اقوام متحدہ کے منشور کو مانتا ہی نہیں ہے لیکن پھر بھی ہم اقوام متحدہ اور عالمی برادری سے گزارش کرتے ہیں کہ پاکستانی ریاست پر دباؤ ڈالے کہ وہ بلوچ لاپتہ اسیران کے حراستی قتل کو بند کرکے انہیں جنگی قیدی کا درجہ دے اور ان کے ساتھ جنیواء کنونشن کے تحت سلوک کیا جائے۔