کوئٹہ پریس کلب کے سامنے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 3684 دن مکمل ہوگئے جبکہ سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے افراد نے کیمپ کا دورہ کرکے لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے اس موقعے پر سندھ سے سینئر ایڈوکیٹ کے بیان کا دوسرا حصہ جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ کیمپ میں موجود خواتین، ماؤں، بہنوں سے وعدہ کرتا ہوں کہ اگران کو میری ضرورت پڑی تو میں خود عدالت میں ان کے مقدمات کی پیروی کیلئے جاؤں گا۔ لاپتہ افراد کے بارے میں چیف جسٹس آف پاکستان کو فوری توجہ دیکر احکامات جاری کیئے جانے چاہیئے۔ لاپتہ افراد کے پیاروں سے ملکر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارا ملک ایک ریاست نہیں بلکہ ہم جنگل میں رہ رہے ہیں جہاں قانون، آئین نام کی کوئی چیز موجود نہیں، جنگل میں بھیڑیے دوسرے جانوروں کو چیز پھاڑ کرتے ہیں اسی طرح ہمارے ملک میں اداروں نے اپنی من مانی چلائی ہوئی ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ یہاں آنے کے بعد معلوم ہوا کہ ہزاروں لوگ عقوبت خانوں میں ہے ان پر ظلم و ستم ڈھائے جارہے ہیں، ریاست اس لیے تشکیل دی جاتی ہے کہ فرد کی حفاظت کی جائے جبکہ ریاست ان افراد کو تحفظ دینے میں مکمل ناکام ہوچکی ہے پاکستان میں جمہوریت کے ہوتے ہوئے بھی سیاسی جماعتوں کی موجودگی میں جنگل کا قانون رائج ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں ان اداروں سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ پاکستانی قوم پر ظلم و ستم بند کرو، ان ماؤں بہنوں اور بیٹیوں کے سہاگ واپس لاؤ، تمہارے گھر میں اگر ایسا ہو تو کیا کرتے، بلوچستان اور دیگر صوبوں میں فورسز اہلکاروں نے شہریوں کو مارنے کا سلسلہ شروع کیا، آئین پاکستان کی کس طرح دھجیاں بکھری جارہی ہے، ریاست کے نام کا کوئی وجود نظر نہیں آتا، لوگوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کردیا گیا ہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میڈیا اپنا کردار بھی ادا نہیں کررہی ہے، ملک میں قانون نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔