کوئٹہ: لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے احتجاج کو 3678 دن مکمل

152

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں پریس کلب کے سامنے بھوک ہڑتالی کیمپ 3678دن مکمل ہوگئے۔ حب چوکی سے عبدالرشید بلوچ اور عبدالمجید بلوچ سمیت مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے کیمپ کا دورہ کرکے لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے وفود سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی غلامی میں گزرے پورے عرصے میں ہر پاکستانی حکمران کے دور میں شہداء کی فہرست میں اضافہ ہوا ہے۔ بلوچ قوم پر اس پورے دور میں عرصہ حیات تنگ رہا ہے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے، بلوچ کے لیے کیا جمہوریت، کیا آمریت اور گزرے ہوئے یا موجود حکمران سب یکساں ہے۔ آج بھی بلوچ قوم ریاست پاکستان کے قہر کی چکی میں پس رہی ہے اور ریاست اپنے ترکش میں موجود تیروں کو بلوچ قوم کے خلاف بڑی سفاکی سے استعمال کررہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچ قوم میں یکجہتی نظر نہیں آتی ہے کہ وہ اس ظلم و بربریت کو روکھنے کی قوت رکھتی ہو۔ اپنے تحفظ کے لیے متحرک ہونا انسانی فطرت کا خاصا ہوتا ہے، یہ احساس انسان کو اپنے ہی جیسے دوسرے انسانوں کو تلاش کرنے پر اُکساتا ہے اور یہی کھوج جدوجہد کا سبب بنتا ہے۔ بلوچستان گزشتہ کئی سالوں سے میدان جنگ بنا ہوا ہے اس جنگی ماحول میں ہزاروں بلوچ نوجوانوں کو پاکستانی فورسز نے لاپتہ کیا ہے اور ان جبری گمشدگیوں کے خلاف ان کے لواحقین احتجاج پر ہے۔

ماما قدیر نے کہا کہ ریاستی اداروں سمیت انسانی حقوق کی تنظیمیں اس سلسلے میں خاموشی اختیار کیئے ہوئے ہیں اور لاپتہ افراد کے حوالے سے قائم عدالتی کمیشن تماشائی کا کردار ادا کررہی ہے، لاپتہ بلوچوں کی مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی، عدالتی کمیشن کی سست روی، ریاستی عدالتوں کا جانبدار رویہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی خاموشی ایک لمحہ فکریہ ہے جس کو خطرے کی گھنٹی کہا جاسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر بلوچستان میں سنگین انسانی بحران پر مزید خاموشی اختیار کیا گیا تو پھر حالات کو درست کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہوگا۔