کوئٹہ: لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے احتجاج جاری

112

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو3670 دن مکمل ہوگئے۔ ژوب سے سیاسی و سماجی کارکن عبدالوحید کاکڑ نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ لواحقین کے پرامن جدوجہد کے خلاف پاکستانی خفیہ ادارے براہ راست ملوث ہیں، بلوچ، سندھی اور پشتون نوجوانوں کے اغواء اور مسخ شدہ لاشوں کے پھینکنے میں بھی یہی ادارے ملوث ہے یہ ریاست کا کام آسان کررہے ہیں۔ پاکستان ڈیتھ اسکواڈ، بلوچ سندھی اور پشتون کش مافیا کو غیر مسلح نہیں کریگا بلکہ اپنا قبضہ مظبوط کرنے کے لیے مقامی لوگوں کو آپس میں دست و گریبان کرکے خود حکمرانی کرے گا۔

انہوں نے کہا دوسرے ریاستی گماشتے پارٹیوں کو جلسے جلوس کرنے کی تو اجازت ہے لیکن لاپتہ افراد اور اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والے طلباء و طالبات اور انجینئروں کو یہ اجازت نہیں دی جارہی ہے۔ ریاست نے لاپتہ افراد کے لواحقین کے پرامن احتجاج کو روکھنے کے لیے ہرطریقہ اپنایا، مسخ شدہ لاشیں پھینکی جارہی ہے جبکہ دوسری جانب وہ لاپتہ افراد سے انکاری ہے کہ بلوچ، سندھی اور پشتون لاپتہ نہیں ہے بلکہ دیگر ممالک گئے ہیں تو پھر یہ مسخ شدہ لاشیں کہاں سے آئے ہیں۔

ماما قدیر نے کہا کہ عسکری اداروں نے نیا طریقہ اختیار کیا ہے کہ جہاں پر فورسز پر کوئی حملہ ہوتا ہے تو عام آبادی پر دھاوہ بول کر نوجوانوں کو حراست بعد لاپتہ کیا جاتا ہے جبکہ خواتین اور بچوں سمیت بزرگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔