کبیر، مشتاق، عطاء اللہ, اب بھی لاپتہ
تحریر: نادر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچستان کو تخت و تاراج کرنے اور بلوچوں کی نسل کشی کو دوام دینے کیلئے ریاستی فوج کشی جب پانچویں بار بلوچ وطن میں شروع ہوئی تو اس جبر کی آگ نے ہر خشک و تر کو جلا دیا۔ انسانی حقوق کی پامالیاں اس حد تک ہوئیں کہ آج بھی انسانیت تھر تھر کانپ رہی ہے، مقبوضہ سرزمین پر جبر کی سیاہ رات ہے کہ ختم نہیں ہورہی، جبری گمشدگیاں آج بھی زور و شور سے جاری ہیں، پنجاب کی اجرتی فوج ہزاروں بلوچ نوجوانوں کا قتل عام و اغواء کرنے کے باوجود بلوچستان کے محاذ پر دنیا بھر میں ناکام و نامراد ہے۔
جبری گمشدگیوں کا نشانہ بننے والے ان ہزاروں نوجوانوں کی طویل فہرست میں کبیر بلوچ، مشتاق بلوچ اور عطاءاللہ بلوچ کے نام بھی شامل ہیں۔ وطن کے یہ تین لال قید و بند کی دس طویل سال ریاستی عقوبت خانوں میں گذار چکے ہیں۔دوست احباب ، انسانی حقوق کی تنظیموں کے تواتر کے ساتھ احتجاج بھی وحشت و بربریت کی ان دیواروں کو توڑ نہ سکی اور آج بھی انکی عظیم مائیں دس سالوں سے آنسووں بھری آنکھوں کو لیئے اس امید سے ہیں کہ انکے بچے ایک دن لوٹ آئیں گے۔
کبیر ، مشتاق اور انکے دوست عطاءاللہ کو ایک ہی دن، 27_03_2009 کو بلوچستان کے مشہور و معروف شہر وادی خضدار سے سادہ وردی میں ملبوس ریاستی اہلکاروں نے بندوق کے زور پر اغواء کرلیا۔ یہ نوجوان اپنے گھر اور خاندان کی کفالت کیلئے روزانہ کی بنیاد پر حصول معاش کے واسطے گھر سے کام پر جاتے اور وقت مغرب تک لوٹ آتے مگر اغواء کے دن کے بعد انکی کوئی خیر و خبر موصول نہیں ہوئی، کراچی اسلام آباد، کوئٹہ سمیت بیرون ملک مقیم سیاسی کارکنوں اور انسانی حقوق کی تنظیمیں آواز بلند کرتی رہی ہیں، مگر ریاستی زور آوروں کے سر پر جوں نہیں رینگ رہی۔ چوراہوں سے لیکر پریس کلبوں کے سامنے احتجاجی کیمپوں میں موجود پرحسرت تصویریں آج بھی انسانی ضمیر کو جنجھوڑتی ہیں کہ ان نوجوانوں کی رہائی کی خوشخبری کب ملیگی۔ کب ان ماوں کے کلیجوں کو ٹھنڈک پہنچے گی۔ کب بہنوں کو اپنے آنسو خشک کرنے کا موقع ملے گا لیکن اس جواب طلب سوال کا اب تلک کوئی جواب کسی کے پاس سے نہیں مل رہا، شکریہ شکریہ کا کھیل کھیلنے والے کردار بھی یہاں پر آکر لاجواب ہیں۔
پاکستان اپنے وجود سے ہی عالمی قوانین کی پامالیوں میں ملوث رہی ہے۔ دوغلی پالیسوں نے اس ریاست کی بنیادیں کھوکلا کردی ہیں۔ انسانی حقوق اور جینواء کنوینشن سمیت جتنے بھی بین الاقوامی معاہدوں پر پاکستانی حکمرانوں نے دستخط کی ہے کبھی بھی ان قوانین پر من و عن عمل درآمد نہیں ہوئی، جبری گمشدگیاں ہوں یا اقلیتوں کو حاصل حقوق ، ریاستی ادارے ہمیشہ ان حقوق کی پامالیوں میں ملوث فریق کا کردار ادا کرتی ہیں۔ ڈاکٹر دین محمد، ذاکر مجید، زاہد کرد، ،غفار مینگل، کبیر بلوچ، مشتاق بلوچ، غفور بلوچ اور عطاء اللہ سمیت سینکڑوں نوجوان آج بھی ان کالے قوانین کی زد میں ہیں۔
ان نوجوانوں کا جرم اور قصور سوائے بلوچ ہونے کے اور کچھ سمجھ نہیں آتی، مگر سزا ایسی کہ طویل سے طویل تر ہوتی جارہی ہے۔ یہاں پر ان ضمیر کے سوداگروں سے شاید اپیل و امید کرنا بھی جائز نہ ہو کیونکہ انکے ہاتھ خود ہزاروں ایسے واقعات میں ملوث رہی ہے۔
قلم ہمیشہ اور بار بار ایسے غیر انسانی عمل کے خلاف اٹھانے کا مقصد یہی ہے کہ شاید ایسے نوجوانوں کیلئے آواز بلند کرنے کیلئے کوئی دربار فرعون میں آواز بلند کرنے کی جسارت کرے۔ ریاستی ایوانوں میں داغدار تو ہر دامن رہی ہے مگر شاید حق گوئی اور حق کا ساتھ کسی کے کبیرہ گناہ معاف کر دے۔ جبری گمشدگیوں کے خلاف آواز بلند کرنا ہر انسان کی ذمہ داری ہے، خاندان سے تعلق داری ہو یا سیاسی تعلق ان سب سے بلند اور عظیم رشتہ انسانیت کا ہے جو مجبور کرتا ہے کہ ان خاندانوں کا درد بانٹیں جنکے لخت جگر تشدد، ٹارچر سے بھری زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔ تشدد کے اثرات اتنے خطرناک ہوتی ہیں کہ کوئی پوری زندگی اس درد کو فراموش نہیں کرسکتا، سوچنا ہوگا کہ ان مظالم و غیر انسانی تشدد کے بعد ان نوجوانوں کی زندگی میں کیا خوشی اور کیا غم رہ گئی ہوگی، سوائے انکی زخمی روح کو چند ساعت آزادی کے گھر اور خاندان والوں کے ساتھ میسر کی جائیں۔
بلوچ قوم کے سیاسی و انسانی حقوق کیلئے بر سر پیکار تنظیموں، قومپرست سیاسی پارٹیوں جن میں ورلڈ بلوچ آرگنائزیشن، بلوچ نیشنل موومنٹ، بلوچ ریپبلیکن پارٹی، بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن، بلوچ وائس فار مسنگ پرسنز، بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن سمیت چھ نقاط کے ساتھ جبری گمشدگیوں کو ایشو بنا کر ریاستی ایوانوں کا حصہ پارلیمانی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی و دیگر انسانی حقوق کی علمبردار تنظیمیں مسلسل اقوام عالم و جینیواء کنونشن کے قوانین کیمطابق جبری گمشدگیوں کے شکار نوجوانوں کو سیاسی قیدی کا درجہ دیکر عدالتوں میں ریاستی الزامات کے تحت پیش کی جانے کی اپیل کرتے رہتے ہیں۔ پاکستانی حکمرانوں کی جانب سے ان تمام اقدامات کو نظر انداز کرنے کا عمل پاکستانی اہکاروں کے خلاف جنگی جرائم و انسانی حقوق کی پامالیوں سے بھری چارج شیٹ تیار کرنے میں مددگار ثابت ہونگی۔ ان جرائم کا آج نہیں تو کل پاکستان میں طاقت کا محور شمار ہونے والے اداروں کے سربراہوں کو سامنا کرنا ہوگا۔
بلوچ وطن کی آزادی تاریخ کا حصہ بنیگی، اس دوران ریاستی ایماء پر بلوچ نوجوانوں کو اذیتوں سے دوچار کرنے والوں کو ظلم و جبر کی اس سیاہ رات میں سوچنا ہوگا کہ بلوچ قوم اپنے نوجوانوں کو دئے ہوئے ہر ایک درد کا حساب مانگے گی پھر ایسا نہ ہو کہ حمکران و قابضوں کے پاس دینے کیلئے کچھ نہ ہو تو پھر تشدد اور اس نفرت کو سود سمیت واپس لینا ہوگا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔