چیف اور سیاستدان – فضل یعقوب بلوچ

230

چیف اور سیاستدان

تحریر: فضل یعقوب بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی سلطنت میں ایک انتہائی مشہور، مقبول اور شاطر، سیاسی بصیرت سے بھرپور، عوام کی مکمل توجہ حاصل کرنے والی اور خود کو ترقی پسند اور وطن دوست تصور کرنے والا قوم پرست پارٹی کا ایک اہم مرکزی رہنما جو شہزادہ بھی تھا رات گئے قتل کردئیے گئے، مقتول کی اپنی کوئی خاص کارکردگی تو نہیں تھی مگر وہ ایک انقلابی لیڈر کا فرزند تھا، اُس کا قاتل سب کو معلوم تھا مگر نامعلوم تھا، لیکن شک کرنے والے اور خود ساختہ فیصلہ کرنے والے تجزیہ نگاروں کیلئے ایک آسانی تھی کہ مقتول کے اپنے قبیلے میں خاندانی دشمنی تھی۔

لیکن مقتول کی شہادت کے بعد انکی قتل کو دو طریقوں سے کیش کیا گیا ایک تو یہ کہ اسکو ایک قوم پرست پارٹی کا مرکزی رہنماء ظاہر کرکے پارٹی پر حملہ ظاہر کیا گیا، دوسری طرف انہیں ایک نڈر انقلابی لیڈر کا بیٹا ظاہر کرکے انقلابی پیش کیا گیا، حالانکہ مقتول کے قتل کا ان دو چیزوں سے دور کا واسطہ نہیں تھا۔ یہ بات سب کو پتا تھا کہ یہ ایک آپسی جنگ ہے پارٹی پر حملہ ہرگز اس کو قرار نہیں دیا جا سکتا، دوسری یہ کہ اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ انکا والد محترم انقلابی لیڈر تھے مگر بیٹے کا کردار کبھی انقلابی نہیں رہا تھا۔

خیر جو بھی ہوا بہرحال اس قتل کو قوم پرست پارٹی نے اپنے لیئے کیش کرکے نہ صرف مذمت کی بلکہ پارٹی کے مرکزی رہنما کے لئے سوگ کا اعلان کیا گیا، ہڑتالیں ہوئیں، احتجاجی ریلی اور جلوس نکال کر قاتلوں کی فوری گرفتاری کا پرزور مطالبہ کیا گیا۔

ایک آدھ دن میں مقتول کے خاندان نے اپنے قبیلے کے غالباً ایک درجن لوگوں پر شک کی بنیاد پر الزام عائد کرکے پرچی کٹوائی۔ اس فہرست میں ایک قبائلی چیف کا نام سرفہرست تھا اور بقایا اسکے خاندان کے نام تھے۔

یہ قبائلی چیف جو بہت کم پڑھا لکھا ہے، جس کی وجہ سے لوگ اسے ان پڑھ اور سیاست سے نابلد تصور کرتے ہیں مگر اسکی حکمت عملی دیکھ کر سوچنا بنتا ہیکہ یہ غیر تعلیم یافتہ ہوکر کیسے کامیاب منصوبے بناتا ہے اگر تعلیم یافتہ ہوتا تو کیا سے کیا نہ کرتا۔

بہرحال اس قتل میں قبائلی چیف کا نام سرفہرست رکھا گیا اور قوم پرست پارٹی کی جانب سے قاتلوں کی گرفتاری کی پرزور مطالبہ کیا گیا، قبائلی چیف دباو میں آگئے تو انہوں نے ایک دھواں دار پریس کانفرنس کرکے اس قتل سے لاتعلقی اور قوم پرست پارٹی کے اس مطالبے پر سخت ردعمل ظاہر کرکے قوم پرست پارٹی کے قائد کو سازشی عنصر قرار دیکر آئندہ اپنی سازشوں سے بعض آنے کا تلقین کی۔

جس کو قوم پرست پارٹی کے کارکنان نے سنجیدہ لیا اور اپنے پارٹی قائد کے حق میں سوشل میڈیا، اور پرنٹ میڈیا پر سرگرم ہوگئے پھر یہ بیان بازی دونوں طرف سے شروع ہونے لگے ہیں ہر کوئی اپنے قائد پر جان نچھاور کرنے کیلئے بے تاب ہے کوئی قبائلی چیف کو دھمکی دیتا نظر آتا ہے کوئی طنزیہ جملوں کا استعمال کرتا ہے، کوئی انکی ان پڑھ اور اردو نہ آنے کا مذاق اڑاتا ہے۔ الغرض پارٹی کے مرکزی رہنمائوں سے لیکر عام ورکر تک لگ جاتے ہیں اپنے قائد کے حق میں بیان بازی میں لیکن اپنے پارٹی کے مرکزی رہنما کی حالیہ قتل کو بھول جاتے ہیں اور یوں قبائلی چیف اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاتا ہے کیونکہ اس کا پریس کانفرنس اور قوم پرست پارٹی کے قائد پر الزام تراشی کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ لوگوں کی توجہ رہنما کی قتل کے خلاف بولنے سے ہٹ جائے، اور وہ ہٹ جاتا ہے۔ یوں ایک ان پڑھ قبائلی چیف ایک پڑھے لکھے قوم پرست پارٹی کو بیوقوف بنا کر اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔