بلوچستان کے ضلع پنجگور سے پاکستانی فورسز نے دو طالب علموں کو حراست میں لینے کے بعد نامعلوم مقام پر منتقل کردیا۔
تفصیلات کے مطابق پنجگور کے علاقے چتکان سے سات روز قبل دو طالب علموں کو فورسز نے حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کردیئے جن کی شناخت عبدالکریم ولد سمیم احمد اور نصراللہ ولد شبیر کے ناموں سے ہوئی ہے۔
بلوچستان میں جبری گمشدگیاں تسلسل کیساتھ جاری ہے جبکہ اس فہرست طالب علموں کی بڑی تعداد شامل ہے۔
بلوچستان سے باہر بھی بلوچ طالب علموں کے گمشدگی کے واقعات پیش آچکے ہیں۔
اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور، پنجاب سے بلوچستان کے علاقے تربت سے تعلق رکھنے والے بلوچ طالب یاسین بشام کے جبری گمشدگی کے واقعے کو دو مہینے مکمل ہورہے ہیں، انہیں 15 جون کو نامعلوم افراد اپنے ہمراہ لے گئے جس کے بعد وہ تاحال لاپتہ ہے۔
بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل بہاولپور نے طالب علم کی گمشدگی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ بہاولپور یونیورسٹی میں بائیو کیمسٹری کے تھرڈ ایئر کے طالب علم یاسین بشام کو نامعلوم افراد نے یونیورسٹی چوک سے لاپتہ کیا۔
اسی طرح بلوچستان کے ضلع آواران سے تعلق رکھنے والا طالب علم پشاور یونیورسٹی کیمپس سے لاپتہ ہوگیا۔
یونیورسٹی آف پشاور میں بی ایس سائیکالوجی کا 19 سالہ طالبعلم سرفراز احمد ولد عمر کو رواں سال فروری کے مہینے میں لاپتہ کیا گیا۔
ضلع پنجگور ہی سے تعلق رکھنے والے دو طالب علموں جمیل ولد حاجی آدم اور انجنیئر فیروز ولد عبدالحکیم کو ضلع قلات سے مسلح افراد نے مسافر بس سے اتار کر لاپتہ کردیا تھا جن کی گمشدگی کو دو مہینے سے زائد کا عرصہ ہوچکا ہے۔
بلوچستان میں جبری طور پر لاپتہ ہونے والے کئی افراد رہا ہوکر اپنے گھروں کو واپس پہنچ چکے ہیں لیکن دوسری جانب کئی افراد لاپتہ کیے جارہے ہیں۔ سیاسی پارٹیوں اور لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے آواز اٹھانے والی تنظیمیں کا موقف ہے کہ ان افراد کو لاپتہ کرنے میں پاکستانی فورسز اور خفیہ ادارے ملوث ہیں۔