نیرنگی یار
برزکوہی
دی بلوچستان پوسٹ
فرزندِ غوث بخش بزنجو میرحاصل خان بزنجو، چیئرمین سینٹ کی نشست ہارنے یا ہروائے جانے کے بعد لال پیلے ہوکر صحافی حضرات کو انتہائی جذباتی اور پریشانی کی حالت میں اپنے ہارنے یا ہروانے کی وجہ براہ راست پاکستان کے خفیہ ادرے آئی ایس آئی کے سربراہ فیض حمید پر عائد کردی۔
بلکل یہ حقیقت کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں، آج سے نہیں بلکہ شروع دن سے ہی جنگل کا بے تاج بادشاہ آئی ایس آئی تھا اور آئی ایس آئی ہے، یونین کونسلر سے لیکر وزیراعظم تک کسی کے بھی ہارنے یا جتوانے، کامیابی یا شکست میں بلواسطہ یا بلاواسطہ پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کا ہاتھ ہوتا ہے۔
لازمی بات ہے، اگر میر حاصل خان کے ہارنے میں آئی ایس آئی کا ہاتھ تھا، تو اگر حاصل خان جیتتے بھی آئی ایس آئی کا ہاتھ ہوتا، مگر پھر بھی غوث بزنجو سے لیکر حاصل خان تک اور حاصل خان سے لیکر نیشنل پارٹی و بلوچستان نیشنل پارٹی اور دیگر پاکستانی پارلیمینٹرین لیڈروں، پارٹیوں اور ورکروں تک پھر کس منہ سے ہمیشہ پاکستانی فریم ورک میں جمہوریت، جمہوریت پسندی، جمہوری قوت، جمہوری روایات، جمہوری سیاست کی راگ الاپاتے ہیں؟
جمہوریت خود کیا ہے؟ جمہوریت اور جمہوریت کی تخلیق کب اور کہاں ہوا؟ جمہوریت کے لوازمات کیا ہیں؟ یہ ایک الگ اور طویل علمی بحث ہے، مگر ہر ذی شعور اور تاریخ و سیاست کا طالب علم بخوبی جانتا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت نام کی نہ کوئی چیز موجود ہے اور نہ ہی آگے موجود ہوگا کیونکہ پاکستان خود فوج کی ملکیت ہے، نہ کہ فوج پاکستان کی ہے، اس لیئے جو بھی، جیسا بھی، فوج اور آئی ایس آئی چاہتا ہے ویسا ہی ہوگا۔ سینٹ چیئرمین بہت دور کی بات ہے، حاصل خان سمیت تمام پارلیمانی سیاستدان اور پارٹیز بے ادبی معاف آئی ایس آئی اور فوج کے بغیر اپنی مرضی سے باتھ روم بھی نہیں جا سکتے ہیں، ان کے لگام ہر وقت ان ہی کے کنٹرول میں ہوتا ہے۔
بقول حاصل خان کے صادق سنجرانی آئی ایس آئی کو قبول ہوا، مگر میں نہیں ہوسکا مطلب دونوں ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں، شاید اس وقت ضرورت کس کی ہے اور کس کی نہیں ہے؟ اہم تو یہی تھا۔
آج بچہ بچہ جانتا ہے کہ آئی ایس آئی حاصل خان ہے اور حاصل خان آئی ایس آئی ہے، پھر حاصل خان سے boss کیوں ناراض ہے وہ آنے والے دنوں میں خود واضح ہوگا ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ کیونکہ حاصل خان کی شکست کے بعد اظہار نفرت، غصے اور جذباتی پن سے صحیح معنوں میں اندازہ ہوتا تھا کہ لوگ اکثر اپنوں سے اس طرح ناراض ہوتے ہیں اور حاصل خان کو اپنوں نے ہی لوٹا ہے۔
مجھے اس وقت بلکہ ہر وقت ان بلوچ کارکنوں اور پیروکاروں کے ذہنوں پر افسوس اور حیرانگی ہوتی ہے، جن کو آج تک یہ نام نہاد پاکستانی پارلیمانی قوم پرست، خاص طور پر حاصل خان جیسے لوگ ورغلا کر استعمال کرتے آرہے ہیں۔ اب غور طلب بات یہ ہے کہ یہ کارکن استعمال ہورہے ہیں یا اپنے آپ کو استعمال کروارہے ہیں؟ دونوں میں واضح فرق ہوتا ہے، انسان لاعلمی و کم شعوری یا بے وقوفی میں استعمال ہوتا ہے، لیکن جب سب کچھ جان کر سب کچھ شعوری بنیادوں پر کرتا ہے تو وہ استعمال نہیں بلکہ اپنے آپ کو استعمال کرواتا ہے۔
گوکہ ہم ضرور کہنے کی حد تک یہ تو کہتے ہیں سیاست خود علم و شعور، سنجیدگی اور دانشمندی کا نام ہے، مگر اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ خود علم و شعور، سنجیدگی اور دانشمندی کیا ہے؟ ان چیزوں کی اصلیت و حقیقت اور حقیقی معیار سے نابلد ہوکر صرف رٹہ بازی اور دعوے کی حدتک ہم زمین و آسمان ایک کردیں نا ہم باعالم و با شعور، سنجیدہ اور دانشمند ہونگے نا کبھی ہوسکتے ہیں، البتہ جاہل، ذہنی غلام اور اندھا دھند پیروکار ہونگے۔
یہ طرزِسوچ اور پہچان شاید پاکستانی و پارلیمانی طرز سیاست، گٹر، روڈ، بجلی، نلکہ، ٹھیکہ، بھتہ، شخصیت پرستی، جھوٹ، منافقت، موقع پرستی، پروٹوکول، مراعات، لالچ، چاپلوسی، ہلڑبازی وغیرہ میں معیوب، نا قابل قبول اور قابل نفرت نہ ہو لیکن جب یہ معیوب، نا قابل قبول اور قابل نفرت چیزیں اور پارلیمانی و پاکستانی طرز سیاست کے گند آلود اثرات کا ایک فیصد بھی قومی آزادی کی تحریک و جدوجہد اور تنظیموں میں ہو پھر وہ تحریک کی کامیابی تو ممکن نہیں بلکہ رفتہ رفتہ خود انتشار و خلفشار کا شکار ہوکر اپنی موت آپ مر جائیگا۔ کیونکہ قومی آزادی کی تحریکوں کی بنیاد و شروعات جذبات، احساسات، نظریات اور مخلصی پر ہوتا ہے اور سفر در سفر تحریک کی پرورش و افزائش بھی محنت، تکلیف، مشکلات، پسینے اور لہو سے ہوتا ہے۔ دوسری جانب پارلیمانی پاکستانی طرز سیاست ان تمام چیزوں سے دور اور بے نیاز ہوکر صرف مادی مفادات اور خواہشات کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ اس واضح فرق کو لیکر جب قومی آزادی کی تحریک میں بھی ہم پاکستانی طرز سیاست کے زاویہ نظر سے سوچیں، اس طرز پر گامزن ہوں گوکہ عمل کیوں نہ آزادی کی جدوجہد کا نہ ہو لیکن جب سوچنے، سمجھنے اور پرکھنے کے ساتھ زاویہ نظر اور نقطہ نظر ویسا ہی ہو، پھر بلوچ تحریک قومی آزادی کو دنیا کی کامیاب اور ماڈل تحریکوں کے صف میں تلاش کرنا احمقی اور خیام خیالی ہوگی۔
میرے خیال میں سب سے بنیادی اور اصل مسئلہ یہی ہے، ہمیں سمجھنا ہے، اس پر غور کرنا اور یہ جان لینا ہے کہ قومی آزادی کی تحریکوں کا مستند اصول، رویے، مزاج، طرز، تقاضے اور فارمولے کیا ہیں جن پر من وعن چل کر بلوچ قومی تحریک ایک ماڈل تحریک کے طور پر ابھر کر کامیابی سے ہمکنار ہوسکے۔
اس بحث و مباحثے کا اہم مقصد یہ ہے کہ تحریک آزادی کبھی بھی پالیمانی روایتی طرز سیاست کا متحمل نہیں ہوسکتا، اگر یہ اثرات بالواسطہ بلاواسطہ جس سطح پر بھی ہوں، وہ تحریک آزادی کی جہد کے لیئے ناسور اور زہر قاتل ہیں اور نتیجہ لاحاصل ہوگا اور وقت پاسی کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوگا۔ اس طرح کا سوچ اور طرز سیاست، آزادی کی جہد میں صرف اور صرف ضائع جہدکار پیدا کرتے ہیں، ان کا پھر تاریخ میں کوئی کردار اور کوئی اہمیت نہیں ہوتا، جس طرح حاصل خان جیسے لوگوں کے پیرکاروں کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ پھر اس سے بہتر قربانی، محنت، مشکلات سہنے کے بعد اپنے طرز سیاست اور طرز عمل کو بھی تحریک آزادی کی تقاضوں اور مزاج کے مطابق آگے بڑھانا ہوگا، نہیں تو ضائع جہدکار ہونے کی پہچان سے تاریخ میں گمنام ہی صحیح فیصلہ ہوگا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔