نواب بگٹی بلوچ نیشنلزم کی علامت ہیں – بی این ایم

622

بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے شہدائے تراتانی کی تیرویں برسی پر انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ نواب اکبرخان بگٹی اور شہدائے تراتانی کا واقعہ بلوچ نیشنلزم کی تاریخ کا یادگار باب ہے، جہاں ایک پیرانہ سالہ رہنما مزاحمت کا راستہ اختیار کرکے امر ہوجاتا ہے اور بلوچ قومی آزادی کے لئے مشعل راہ بن جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ نواب اکبر خان بگٹی کی پاکستانی قبضہ گیریت کے خلاف مزاحمت کا فیصلہ بلوچ مزاحمتی تاریخ اور اس کے عصری تقاضوں کے ادراک کا ثمر تھا۔ یہ تاریخ کا ادراک تھا کہ نواب صاحب نے اپنی گزشتہ پارلیمانی سیاست کے برعکس کلاسیک بلوچ مزاحمت کا کرداراپنایا، اس میں جدت لائی اور اجتماعی قالب میں ڈھل کر ادا کیا۔ وہ اپنی فہم و بصیرت سے اخذ کر چکے تھے کہ بلوچستان کا مسئلہ، بلوچ قومی وسائل اور بلوچ زبان و ثقافت کا دفاع پاکستان کی وفاقی نظام میں نہیں بلکہ ایک آزاد بلوچ ریاست میں مضمر ہے۔

ترجمان نے کہا نواب اکبرخان بگٹی ایک بلند پایہ سیاستدان کے علاوہ کثیرالجہت انسان تھے لیکن ان کا بنیادی صف تاریخ شناسی تھا۔ وہ سیاست میں مختلف نشیب و فراز سے گزرچکے تھے۔ یہ ان کی تاریخ شناسی تھا کہ انہوں نے جدوجہد آزادی کے لئے میدان جنگ کا رخ کیا اورآخری دم تک جرات، بہادری اور استقلال سے لڑے اور بلوچ قومی تحریک میں ناقابل فراموش کردار ادا کیا۔ وہ اپنی عظیم قربانی سے قومی تحریک میں انمٹ نقوش چھوڑ گئے۔ ان کی تاریخی فیصلوں نے انہیں امر کردیا جبکہ اس دور کے پاکستانی حکمران جنرل مشرف خود اپنے ملک سے مفرور ہیں اور نواب صاحب کی شہادت میں ملوث اس کے کرایے کی سپاہی بھی گمنام ہیں۔

انہوں نے کہا شہدائے تراتانی کا واقعہ آج ہم سے تقاضا کرتاہے کہ نواب اکبرخان بگٹی اور ہزاروں شہداء نے جس مقصد کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، ہر لمحہ اس احساس کے ساتھ آگے بڑھیں اور یہ ادراک کریں کہ خطے میں ہونے والی پیش رفت اس امر کا غماز ہیں کہ اکیسویں صدی نیشنلزم اورنیشنلزم کی جیت کا صدی ہے۔ نیشنلزم کا بنیادی تقاضا قومی آزادی ہے۔ قومی آزادی کے بغیر نیشنلزم کی بات قوم کو سراب کے پیچھے لگانے کے سوا کچھ بھی نہیں۔