میرے قوم کے نوجوان – برزکوہی

1055

میرے قوم کے نوجوان

برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

میرے قوم کے نوجوان، میرے مستقبل کے معمار، میرے روشنی کے مینار، میرے نویدِ بہار جن سے امیدوں کی لَڑی بندھی ہوئی ہے، جو گھپ اندھیرے سے روشنی چھین کر لائیں گے، وہ پوری رات لڈو، تاش، شطرنج، پب جی، فیسبک کی اٹکھلیوں میں ہنس کر گذار کر صبح کی پہلی کرن کے ساتھ سوجاتے ہیں اور پورا دن بے فکر و غم سونے کے بعد سوال کرتے ہیں کہ ملک و قوم ابھی تک آزاد کیوں نا ہوا؟

میرے قوم کے نوجوان، کندھوں پر اس پریشانی کی بار کو بیٹھنے تک نہیں دیتے کہ دشمن کیا چاہتا ہے، اسے شکست کیسے دے سکتے ہیں، اپنی دفاع کیسے ہو پھر سگریٹ کا دھواں منہ سے نکالتے ہوئے گرجدار آواز میں کہتے ہیں کہ ہم بالاچ بیرگیر کی نسل ہیں، اپنے بھائیوں کا بدلا لینا جانتے ہیں، انتقام ہماری رگ رگ میں رچی بسی ہے۔

میرے قوم کے نوجوان، اکیسویں صدی میں ابھی تک قبیلے، ٹکر و شاخ کے پجاری ہیں، اپنے سردار، نواب، میر، ٹکری و ملک وڈیرہ سے لیکر انکے شہزادوں، سردارزادوں، نوابزادوں کہ ہر حرکت پر ایسی نظر رکھے ہوئے ہیں کہ ہر چیز پتہ ہے کہ کون کیسی عینک و کپڑے پہنتا ہے، کس کے کیسے جوتے ہیں، کیسی گاڑی و مبائل پاس ہے، چلتا، پھرتا و سوتا کیسا ہے۔ یہاں تک کہ انکے گھر و بیٹھک کے تکیوں و قالین کا رنگ بھی انکو پتہ ہے۔ یہ سب دیکھ کر منہ میں پانی لیئے کہتے ہیں کہ بلوچ کی تقدیر کیوں نہیں بدلتی۔

میرے قوم کے نوجوان، ابھی تک کسی ملا، سید، پیر و فقیر یا درگاہ جاکر منتوں میں خلاء پر پہنچنے کا خواب سجاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ دنیا مریخ سے لیکر الفا سینچورین کا سفر گنڈے تعویز سے طے کرپایا۔

میرے قوم کے نوجوان، کتاب دوستی کو حرام، تحقیق کو جرم، سوال کو بدعت، تشکیک کو پاگل پن سمجھ کر ابھی تک عظمت اپنے باپ داد کے قصے کہانیوں میں ڈھونڈ کر سینہ تان کر ایسے فخریہ بیان کرتے ہیں، جیسے انہوں نے نظریہ اضافیت پیش کیا ہو یا قوم کو اپنے حکمت سے ناقابلِ تسخیر بنایا ہو۔

میرے قوم کے نوجوان، آج بھی زندِ غلامی میں ایسے مدہوش ہوکر پنجابیوں و چوہدریوں کے کُھسوں، دھوتیوں و پیروں تلے دب کر نیچے پڑے ہوئے ہیں، لیکن حقیقت حال سے غافل، اپنے آپ کو دنیا کے مغل فاتح بادشاہ و شہنشاہ تصور کرتے ہیں، مگر اس شعور و علم اور حقیقت سے بے خبر و بیگانہ ہیں کہ دنیا میں غلام قوموں کی نہ کوئی عزت ہوتی ہے اور نہ کوئی وقار، نہ کوئی قدر، نہ کوئی اہمیت ہوتا ہے۔ البتہ غلامی کی جنگ لڑنے سے کم از کم غلامی سے انکار کا تمغہ سینے پر سجتا ہے۔

میرے قوم کے نوجوان، آج بھی کسی ایف سی چوکی پر چار ٹکے کے کسی پنجابی نائی کے اولاد کے سامنے اچھے بچوں کی طرح کھڑے ہوکر اپنے ہاتھ اوپر کرکے تلاشی دیتے ہیں اور پھر تلاشی کے بعد اس کو سر جی کہہ کر اسکا شکریہ ادا کرکے خاموشی سے چلے جاتے ہیں اور پھر ایک گھنٹے بعد کسی مجلس میں بیٹھ کر فخریہ طور کہتے ہیں کہ جی ہم بلوچ ضدی و اناپرست قوم ہیں کیونکہ ہم چاکر و گہرام کے اولاد ہیں، ہمارے خون میں ضد و انا شامل ہے۔ ہم کبھی جھکتے نہیں۔

میرے قوم کے نوجوان، جب لکھاری، شاعر و ادیب بنتے ہیں تو حسنِ یار کی تعریف و اسکی زلفوں کے ہر ایک پیچ و خم پر کتاب لکھ دیتے ہیں، اور واسکٹ کے سارے بٹن حلق تک بند کرکے گھومتے ہوئے خود کیلئے والٹیئر و سارتر سے کم رتبے پر تیار نہیں ہوتے، لیکن جب ان سے کہو کہ نظریں حسن یار سے پھیر کر ذرا آس پاس میں جلتے ہوئے گھروں، زمین پر پڑی بدبودار لاشوں اور لمبے توپوں پر ڈالو، ذرا بارود کے پھیلے بو کو سونگھو، ذرا ہمسائے کے اجڑے گھر کے لو کی حدت کو محسوس کرو تو جلدی سے قلم کا ڈھکن لگاکر چلتے ہوئے کہتے ہیں کہ حالات خراب ہیں۔

میرے قوم کے نوجوان، آج بھی عزت کسی بڑے کھانے پر دعوت، میر صاحب کے ٹی پارٹی میں مدعو ہونے، گاڑی کے فرنٹ سیٹ پر بیٹھنے، شلوار کے گز میں ڈھونڈتے ہیں، اگر نصیب ہوجائیں تو خوشی سے رات بھر سو نہیں پاتے۔

میرے قوم کے نوجوان، آج بھی دودھ پتی چائے اور ڈِیو بوتل سے خوش بھی ہوتے ہیں اور ناراض بھی، آج بھی ٹوپی ٹیڑھی، قمیض کے بٹن کھولنے اور موٹر سائیکل تیز چلانے کو بہادری اور جوان مردی سمجھتے ہیں۔

میرے قوم کے نوجوان، آج بھی ہلکی سی بات پر غصے سے آگ پیلا ہوکر اسے بے عزتی سمجھ کر اپنے بھائی کے خون کے پیاسے بن جاتے ہیں اور فوراً بندوق اٹھا کر بھائی کے سینے کو چھلنی کرنے کے درپے ہوتے ہیں اور موقع ملے مار کر، دنیا میں اعلان کرتے ہیں کہ انہوں نے غیرت کی کیسی اعلیٰ مثال قائم کردی، لیکن جب دشمن انہیں سر راہ روک کر روڈ پر مرغا بناتا ہے اور ماں بہن کی گالیاں دے کر پیچھے ایک لات بھی مارتا ہے تو چپ ہوتے ہیں، اور کپڑے جھاڑ کر ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے چلے جاتے ہیں کہ کسی نے دیکھا تو نہیں۔

میرے قوم کے نوجوان، گھنٹوں چوراہے پر واقع کسی ہوٹل پر فضول بیٹھتے ہوئے دودھ پتی چائے کا تیسرا کپ ختم کرتے ہوئے کہتے ہیں، اس تنگ نظر معاشرے میں انکا دم گھٹتا ہے اور یورپ و امریکہ کی آزادی و ترقی کی لمبی مثالیں دیتے ہیں۔ وہ یورپ کی آزادی چاہتے ہیں لیکن اس آزادی کیلئے یورپ و امریکہ نے جو قربانیاں دیں، جو قیمت ادا کی ان سے کوئی سروکار نہیں رکھتے۔ وہ یورپ و امریکہ کی ترقی چاہتے ہیں لیکن انہوں نے وقت ضائع کیئے بغیر کتنی محنت کی اسے نظر انداز کرتے ہیں۔

میرے قوم کے نوجوان، گھر میں بیٹھ کر ٹی وی کا ریموٹ ہاتھ میں لیئے چار زانوں بیٹھتے ہوئے نیٹ فلکیس سے محضوض ہوتے ہیں اور اماں جان یا چھوٹی بہن پلیٹ میں گرم کھانا انکے سامنے رکھ دیتا ہے، اب وہ اسی انتظار میں ہیں کہ اسی طرح وہ بیٹھے ہونگے اور بوڑھی اماں یا چھوٹی بہن پلیٹ میں گرما گرم آزادی انکے سامنے پیش کرے گا اور قوم آزاد ہوجائے گی اور ہم ترقی کا سفر طے کریں گے۔

نوجوان کسی بھی قوم کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے، آج ایک طرف دشمن بڑے چالاکیوں کے ساتھ قوم کے نوجوانوں کو نشے کے لَت میں ڈال رہا ہے اور دوسری طرف جو نشے سے بچے ہیں انہیں معمولی معمولی گریڈ کے نوکریوں، مِیر بننے کے خوابوں، ایجنسیوں کے دیئے گئے گاڑیوں و لوٹ مار کی مراعات کا گاجر دِکھا کر مفلوج کررہا ہے اور تیسری طرف بیروزگاری کو عام کرکے انہیں مجبور کررہا ہے کہ وہ بھی اس غلام گردش میں شامل ہوجائیں۔ اس طرح آہستہ آہستہ نوجوانوں کی ایک پوری نسل مفلوج ہوتی جارہی ہے اور جب ریڑھ کی ہڈی مفلوج ہوجائے تو پورا بدن ناکارہ ہوجاتا ہے۔ اس غلام گردش کو توڑنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ میرے قوم کے نوجوان، کاہلی، سستی، بے حسی اور بے شعوری کے گرداب سے خود کو نکال کر اپنی تقدیر خود لکھنے کا فیصلہ کریں۔ پہلے بطور فرد خود کو آزاد کریں پھر بطورِ قوم ہم خود بخود آزاد ہوجائیں گے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔