مسلح جدوجہد | قسط 5 – کوامے نکرومہ | مشتاق علی شان

279

دی بلوچستان پوسٹ کتابی سسلسلہ قسط نمبر 5

مسلح جدوجہد، مصنف : کوامے نکرومہ

ہمارے مقاصد | جدوجہد آزادی کا موجودہ مرحلہ | کھوکھلی آزادی اور متحد تحریک

ترجمہ : مشتاق علی شان

ہمارے مقاصد
OUR OBJECTIVES

ہماری تحریک آزادی کے مقاصد سیاسی طور پر تین حصوں میں تقسیم کیے جا سکتے ہیں۔
(1)قوم پرستیNATIONALISM
(2)پان افریقن ازم PAN AFRICANISM
(3) سوشلزم SOCIALISM
ہمارے یہ تین مقاصد افریقہ میں استحصال کے خلاف جدوجہدکرکے حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ یہ تینوں مقاصد اندرونی طور پر ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہیں۔اگر ان تینوں میں سے کوئی بھی ایک مقصد حاصل نہ ہوا تو کسی بھی علاقے میں نہ تو حقیقی آزادی آ سکتی ہے اور نہ ہی مستحکم حکومت قائم کی جا سکتی ہے۔

(1)قوم پرستی NATIONALISM
قوم پرستی ایک نظریہ ہے جس کے ذریعے نوآبادیاتی عوام،نوآبادیاتی نظام کے خلاف جدوجہد کر کے آزادی حاصل کر سکتے ہیں۔ ملک کے وہ علاقے جہاں طریقہ پیداوار ترقی یافتہ نہیں ہے اور ہمارے لوگوں کو سیاسی طاقت حاصل نہیں ہے ان لوگوں کے لیے ایک متحدہ جنگجو محاذ قائم کیا جاسکتا ہے جو کسی بھی آزادی کی تحریک کی کامیابی کے لیے بنیادی شرط ہے۔
سماجی طور پر نوآبادیات کے لوگ ایک دوسرے سے زیادہ مختلف نہیں ہوتے ہیں۔ان کا استحصال نوآبادیاتی حاکم بنا کسی تفریق کے کرتے ہیں،تب یہ بین الاقوامی نعرہ گونجتا ہے کہ ”قوم کو نوآبادیاتی نظام سے آزاد کرانا چاہیے۔“ اور اس نعرے کا دباؤ نوآبادیاتی ایجنٹ اور اس کے گماشتے نہایت شدت سے محسوس کرتے ہیں۔جب کہ ساری قوم ایک ”قوم“ کے طور پر انقلاب کے لیے ظالم کے خلاف آگے بڑھتی ہے اور آزادی حاصل کرتی ہے۔
قوم پرستی آزادی کی جدوجہد میں ایک ضروری قدم ہے لیکن ہمارے لوگوں کا سیاسی اور معاشی استحصال بھی ہوتا ہے،اس لیے یہ ان کے لیے آخری حل نہیں ہے۔

قوم پرستی اپنے طور پر ایک محدود نظریہ ہے۔یہ ایک جغرافیائی اور سیاسی نظریہ ہے جو نوآبادیاتی طاقتوں نے 1884کی برلن کانفرنس میں طے کیا تھا۔وہ حالتیں ویسی ہی ہیں جیسے آج سیاسی طور پر افریقہ کی ہیں۔ افریقی لوگوں کی فطری طور پر اپنی تواریخ ہیں جو نیل سے کانگو، سینی گال سے نائیجر اور کانگو سے زمبیسی تک پھیلی ہوئی ہیں۔

سامراج نے مصنوی طور پر جو افریقی ”قومیں“ اپنے مقاصد کے پیش نظر تشکیل دی ہیں وہ ہماری قدیم افریقی تہذیب سے نہیں پھوٹی ہیں۔اس کے طور طریقے بھی افریقی ماحول سے میل نہیں کھاتے۔ان میں ہر کوئی اپنے طور پر ترقی کے لیے جدوجہد کر رہا ہے لیکن اس کی راہ میں سامراج اور جدید نوآبادیاتی نظام رکاوٹ ہے جو افریقہ میں مکمل طور پر موجود ہے۔ سامراج نے افریقہ کے کافی علاقے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے انتظامی طور پرآپس میں ملائے ہیں۔

اگر بڑی تجارتی کمپنیوں، کانیں کھودنے کے اداروں میں صنعتی مراکز کا جائزہ لیا جائے تو یہ سب کثیر القومی اور کثیر الملکی ادارے ہیں جن کے ذریعے سرمایہ دار نہایت آسانی سے بہت زیادہ منافع حاصل کرتے ہیں۔
یہی وقت ہوتا ہے کہ ہم ملکی سطح پر اپنی معاشی اور سیاسی ترقی کے لیے منصوبہ بندی کریں۔

افریقہ کے لیے یہ امر بنیادی طور پر ناگزیر ہے کہ افریقی تہذیب اور نظریے کو اجاگر کیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہو گا کہ معاشی اور صنعتی ترقی کو بھی آگے بڑھایا جا سکے۔اس کے لیے ضروری ہے کہ قدرتی وسائل کے زیادہ سے زیادہ استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ قوتِ محنت کو بھی استعمال کیا جائے تاکہ ایک ایسا مستحکم معاشی نظام وجود میں آئے جس میں سرمایہ دارانہ مقابلہ اور اشیاء کا ایک ہی جگہ پر دو مرتبہ تیار ہونا شامل نہ ہو۔اس سے ہمارا مقصد یہ نہیں ہے کہ بیرونی صنعتی کمپنیوں اور کان کنی کے ادارے تباہ کیے جائیں بلکہ انھیں افریقی عوام کے مفادات کے لیے استعمال کیا جائے۔
”قوم پرستی“ کی محدودیت کو ان ممالک میں دیکھا جا سکتا ہے جو سامراج کے ساتھ لڑ کر آزاد نہ ہو سکے بلکہ ان کے پاس آگے بڑھنے کا کوئی بھی پروگرام نہیں تھا سو وہ سامراج کے ساتھی بن گئے۔ لاطینی امریکا اس کی مثال ہے۔ اس کا مقصد محض مالکان کی تبدیلی ہوتا ہے جو کہ مسائل کا حقیقی حل نہیں ہے۔
افریقہ کے متحد ہونے سے ایک افریقی قوم کا خاکہ تشکیل پاتا ہے جو ختم نہیں ہو سکتا۔

(2)پان افریقن ازم PAN AFRICANISM
قوم پرستی کی محدود ہونے کو ہم بیان کر چکے ہیں جس کا اظہار آزادی کے بہت سے راہنما بھی کر چکے ہیں۔ لیکن اگر اب تک لوگ نظریاتی طور پر بالغ نہیں ہوئے ہیں اور وہ ایک طویل جدوجہد کے لیے تیار نہیں ہیں تو اس وقت دوسرے کسی نظریے کی طرف جست نہیں لگائی جا سکتی۔ایسے وقت میں قوم پرستی کو ہرگز ترک نہیں کرنا چاہیے۔

ہماری جدوجہد کا خاکہ 1945میں برطانیہ کے شہر مانچسٹر میں ”پانچویں متحد افریقہ کانگریس“ میں منظر عام پر لایا گیا۔وہاں قوم کی تعمیر اور عوام کے لیے خوشحالی اور جمہوریت لانے اور نوآبادیاتی نظام وسامراج کے خلاف ”آل افریقی جدوجہد“ کرنے کی قرار دادیں پاس کی گئیں۔ وہاں جدید نوآبادیات کا کوئی بھی حوالہ نہیں تھا کیوں کہ جدید نوآبادیات وسیع پیمانے پر1957کے بعد سے افریقہ میں شروع ہوئیں۔لیکن متحد افریقی نظریے کے حوالے سے مانچسٹر میں 1945کی کانگریس اور آل افریقی پیپلز کانفرنس 1958اس خیال کی حامل تھیں کہ ”سارے افریقی جن کا محنت کشوں کی شکل میں یا نسل کی صورت میں استحصال ہو رہا ہے ان کا تحاد۔“
افریقی لوگوں کا اتحاد تقاضہ کرتا ہے کہ
(1)سامراجیت اور بیرونی لوٹ کھسوٹ کسی بھی صورت میں ہو اس کا خاتمہ ہو نا چاہیے۔
(2)جدید نوآبادیات کی نشاندہی کی جائے اور اس کا خاتمہ کیا جائے۔
(3)نئی افریقی قوم کو برِ اعظم افریقہ میں ترقی دی جائے۔
(3) سوشلزم SOCIALISM
افریقہ کے اتحاد کے بعد سوشلزم، افریقی سماج اور افریقی سماج کی سوشلسٹ خصوصیات آتی ہیں۔
سوشلزم اور افریقہ کا اتحاد ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم ہے۔
سوشلزم میں
(1)ذاتی ذرائع پیداوار قومی ملکیت میں لے لی جاتی ہیں کیوں کہ اس میں پیداوار منافع کے لیے نہیں بلکہ استعمال کے لیے ہوتی ہیں۔
(2)پیداوار کے لیے ریاست منصوبہ بند طریقے استعمال کرتی ہے جن کا دارومدار جدید صنعت وزراعت پر ہوتا ہے۔
(3)سیاسی طاقت حقیقی عوام کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔سارے محنت کش ہوتے ہیں اور کوئی بھی کسی کا استحصال نہیں کرتا ہے۔
(4)پیداوار کے لیے سائنسی انداز فکر کو استعمال کیا جاتا ہے۔
سوشلزم ایک نئے ترقی یافتہ معاشرے کو جنم دیتا ہے اور یہ امر ثابت ہو جاتا ہے کہ معاشرے میں ترقی سرمایہ دار صنعتی معاشرے کے بغیر بھی کی جا سکتی ہے۔

سوشلزم اس وقت افریقہ کے سارے سیاسی رہنماؤں کے لیے ضروری ہے۔ ان میں سے بہت سے حقیقی سوشلسٹ پالیسیاں ترتیب نہیں دیتے وہ یہ سوچ بھی رکھتے ہیں کہ ہمارے خطے کے لیے ”افریقی سوشلزم“ کی ضرورت ہے لیکن
حقیقی سوشلزم صرف سائنٹفک سوشلزم ہے جس کے اصول بین الاقوامی ہیں۔ اسے حاصل کرنے کا ایک طریقہ ہے کہ سوشلسٹ مقاصد کی حامل سوشلسٹ پالیسیاں اس ملک کے مخصوص حالات کے تحت تشکیل دی جائیں اور سوشلزم کے لیے ایک مقررہ تاریخی وقت کے اندر جدوجہد کی جائے۔

افریقہ کے سوشلسٹ ممالک اپنی پالیسیوں کے حوالے سے ایک دوسرے سے مختلف ہو سکتے ہیں، کیوں کہ سوشلزم کے حصول کے راستے مختلف ہیں۔لیکن وہ راستہ منتخب کیا جائے جو حالات کے مطابق درست ہو۔ اس کا تعین سوچ بچار کے بعد کرنا چاہیے اور اس کی وضاحت سائنسی ہونی چاہیے۔

سوشلزم کے ذریعے ہی ہم اپنا سرمایہ ترقی اور ملک کی عام فلاح و بہبود کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔ اس طرح آزاد اور متحد افریقہ کا مقصد حاصل ہو گا۔


جدوجہد آزادی کا موجودہ مرحلہ
THE PRESENT STAGE OF LIBERATION STRUGGLE

ہماری جدوجہد آزادی کے لیے تین باتیں اہمیت کی حامل ہیں جو کچھ یوں ہیں:
(1)حقیقی آزاد افریقی ملک جو نوآبادیاتی نظام سے چھٹکارا پا چکے ہوں انھیں دیگر افریقی ممالک کی آزادی کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے۔
(2)ہمارا نوآزاد ملک شروع میں سامراج پر کوئی خاص اثر نہیں چھوڑے گا۔
(3)سامراج سے ہماری مکمل آزادی، دوسرے لفظوں میں یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ قومی تعمیر میں عوام کا ایک جتنا حصہ نہیں ہوتا جب تک ہم سامراج کے نوآبادیاتی یا جدید نوآبادیاتی صورت کو ختم نہیں کر دیتے۔
متحد افریقہ کے لیے یونین حکومت کا ہونا ناگزیر ہے۔
ان مندرجہ بالا امور کو اس طریقے سے عمل میں لایا جا سکتا ہے:
(1)افریقہ میں جو سامراجی جدوجہدیں ہیں انھیں ایک بنیادی فارمولے کے تحت متحد کیا جائے۔
(2)لوگوں کے عمل کے لیے ملک میں عملی خاکہ تشکیل دیا جائے۔
(3)مختلف ادوار میں افریقہ کی سیاسی بیداری کو سمجھا جائے۔

افریقی عوام کے اتحاد کی تحریک کے اجتماعی تجربات
ACCUMULATED EXPERIENCE OF THE AFRICA PEOPLES UNITY MOVVMENT

جب ہمیں اپنے مقصد کا اچھی طرح معلوم ہو گا تب ہی ہم اس کی روشنی میں افریقہ کی سیاسی بیداری کا تنقیدی جائزہ لے پائیں گے۔ یہ صرف ماضی کے تجربات سے حاصل کیا جا سکتا ہے اور اس کے بعد ہی ہم اپنی تحریک میں مطلوبہ تبدیلیاں اور مستقبل کے لیے درست حکمتِ عملیاں ترتیب دے سکتے ہیں۔

1957میں گھانا کے آزاد ہونے کے بعد نہایت ہی تیزی سے تبدیلیاں رونما ہوئیں جس نے افریقی باشندوں کی تحریک کو مزید قریب کیا۔یہ اہم واقعات کچھ یوں ہیں:
(1)اپریل 1958میں عکرہ میں افریقی ریاستوں کی پہلی کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ اس وقت آٹھ ریاستیں آزاد تھیں جن میں ایتھوپیا، گھانا، لائبیریا، مراکش، سوڈان، تنزانیہ اور مصر شامل تھے۔اس کانفرنس کے مقاصد یہ تھے:
(ا)ایک جیسے مسائل پر مشترکہ طور پر بحث کرنا۔
(ب) آزادی برقرار رکھنے کے لیے مشترکہ راہیں تلاش کرنا۔
(ج) آزاد ریاستوں کے درمیان معاشی وسیاسی تعلقات مضبوط کرنا۔
(د)جو افریقی ریاستیں اب تک نوآبادیات کا شکار ہیں ان کی آزادی کی راہیں تلاش کرنا۔

اس کانفرنس میں جو افریقی راہنما شریک ہوئے وہ سب سامراج مخالف تھے اور وہ سیاسی طور پر تعاون کرنے کے لیے UNOسطح تک راضی تھے۔1958میں متحد افریقہ کا نظریہ افریقی خطے میں آیا جو حقیقی طور پر اسی کے لیے تھا۔
(2)دسمبر1958میں عکرہ میں ”آل افریقن پیپلز کانفرنس“ ہوئی جس میں 62افریقی قوم پرست تنظیموں کے نمائندے شریک ہوئے۔ اس کانفرنس میں انھوں نے آزادی کی تحریک کے مختلف پہلوؤں پر گفت وشنید کی۔مشترکہ افریقی سیاسی تحریک کو منظم کرنے کا خیال اس کے بعد شروع ہوا۔
(3)”تیسری آل افریقی پیپلز کانفرنس“ مارچ1961میں قاہرہ میں ہوئی۔ اس کانفرنس کا اصل مقصد یہ تھا کہ افریقہ میں جدید نوآبادیات کے خلاف انقلابی جدوجہد کیسے شروع کی جائے۔

اس کانفرنس میں یہ طے ہوا کہ سامراج مخالف جدوجہد اور آزاد ریاستوں کی حکومتوں کو سامراج کے خلاف استعمال کیا جائے۔
اس کے بعد سامراج نے مندرجہ ذیل طریقے سے حکمت عملی ترتیب دی:
(ا)سیاسی دباؤ کے ذریعے۔
(ب) کچھ ریاستوں کو کوکھلی آزادی دے کر۔

اس کے بعد SANNIQUELLIEکانفرنس جولائبیریا میں جولائی 1959میں منعقد ہوئی۔اس میں ایک گروپ کا خیال تھا کہ ”سیاسی طور پر افریقہ میں کام کرنے والی تمام تحریکوں کو متحد کیا جائے۔“ جب کہ دوسرے گروپ کا خیال تھا کہ ”ہر ریاست اپنا دفاع خود کرے۔“

یہ دوسرا خیال کالونی کے تبدیل ہوتے حالات میں سامراجی مقاصد کے زیادہ قریب تھا۔الجزائر میں FLNکی مسلح جدوجہدکوطاقت کے ذریعے دبایا گیا تاکہ ایسی دوسری انقلابی بیداری نہ ابھر سکے۔1959اور1960کے درمیانی عرصے میں 13آزاد ریاستیں متحد ہوئیں جن میں سے 11فرانس کی کالونیاں تھیں۔ اگر ان حالات کا قریب سے جائزہ لیا
جائے تو ان آزاد ہونے والی 13ریاستوں میں جدید نوآبادیاتی رحجانات موجود تھے۔


کھوکھلی آزادی اور متحد تحریک
SHAME INDEPENDENCE AND UNITY MOVEMENT

سامراج افریقی ریاستوں کو کھوکھلی آزادی دینے کے لیے تیار تھا تاکہ انھیں وہ اپنے فائدے کے لیے استعمال کر سکے اور یہ ریاستیں آزادی کی تحریک سے ہمکنار نہ ہو سکیں۔

یہ حیرت انگیز امر تھا کہ آزاد افریقی ریاستوں کی کانفرنس جو 1960میں عدیس ابابامیں منعقد ہوئی اس میں الگ الگ متحد ہونے کے سوال پر بحث کی گئی جوSANNIQUELLIEکانفرنس میں کی گئی تھی۔ اس کانفرنس میں طے کیا گیا کہ:
(1)سیاسی طور پر مکمل ساتھ ہونے کی بجائے ہر ایک ملک اپنے حالات کے مطابق تعاون کی پالیسی افریقی ریاستوں کے اندر تشکیل دے اور علاقائی گروپ ریاستوں کے درمیان قائم کیے جائیں۔
1958(2)میں عکرہ ACCRAکانفرنس میں ریاستوں کے لیے مشترکہ خارجی پالیسی تشکیل دینے کا طے ہوا تھا لیکن اسے رد کرتے ہوئے ہر ریاست نے الگ خارجہ پالیسی اپنائی۔اس طرح سامراج کو زیادہ موقع ملا کہ وہ مختلف ریاستوں کے لیے مختلف ذرائع سے حکمتِ عملی عمل میں لائے۔
(3) یہ منطور کیا گیا کہ الجزائر کی تحریکِ آزادی کے لیے فرانس پر سیاسی دباؤ ڈالا جائے اور الجزائر کی اخلاقی مدد کی جائے۔یعنی کھلے لفظوں میں سیاسی دباؤ سے مراد سامراج کی برسرِ عام اور کھل کر مخالفت نہ کرنا تھا۔اس لیے 1960کی ابتدا میں یہ آزاد ریاستیں ایک دوسرے سے دور ہوتی چلی گئیں جس کے نتیجے میں کچھ ریاستیں سامراج کے قریب ہو گئیں۔

معروضی طور پر جن ریاستوں میں حالات مختلف تھے ان میں سیاسی خلیج بڑھتی رہی۔
جو سیاسی حالات تھے انھیں دو اصطلاحات کے ذریعے سمجھا جا سکتا ہے۔ ایک حقیقی آزادی اور دوسری کھوکھلی آزادی
(1)حقیقی آزادی (GENUIN INDEPENDENCE)جولوگوں کی سیاسی جدوجہد یا مسلح جدوجہد کے ذریعے حاصل کی جا تی ہے۔
(2)کھوکھلی آزادی (SHAM INDEPENDENCE) یہ آزادی سامراج لوگوں کے سیاسی شعور کو آگے بڑھنے سے روکنے اور اصل مقاصد سے ہٹانے کے لیے دیتا ہے۔

یہ بات اہم ہے کہ سامراج نے جن ریاستوں کو آزادی دی ہے انھیں وہ مختلف ذرائع سے اپنے ساتھ جوڑتا آ رہا ہے کیوں کہ یہ اس کا شعور ی عمل ہوتا ہے۔ نتیجے کے طور پر یہ ریاستیں آزاد نہیں بلکہ جدید نوآبادیات ہوتی ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔