دی بلوچستان پوسٹ کتابی سسلسلہ قسط نمبر 10
مسلح جدوجہد، مصنف : کوامے نکرومہ
اعلیٰ درجے کے پیداواری سیکٹرز پر جدید نوآبادیات کا کنٹرول | عورتوں کا کردار
ترجمہ: مشتاق علی شان
اعلیٰ درجے کے پیداواری سیکٹرز پر جدید نوآبادیات کا کنٹرول
NEO-COLONIALIST CONTROL OVER THE ADVANCED SECTORS OF PRODUCTION
ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ سامراج جدید نوآبادیات کے مرحلے اور خاص طور پر زیادہ تر منافع اعلی درجے کے پیداواری سیکٹرز پر قبضہ کر کے حاصل کرتا ہے جن میں کانیں، کارخانے، تجارت، روزمرہ کے چھوٹے موٹے کاروبار، ٹرانسپورٹ اور ماہی گیری شامل ہے۔
یہ مذکورہ بالا سیکٹر افریقہ میں مغرب کی 90%سرمایہ کاری کا سبب بنتے ہیں۔ یہی جدید نوآبادیات کے بڑھنے کا بنیادی سبب ہے۔ سامراج زراعت کے شعبے میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری گھٹا رہا ہے اور اس سیکٹر کو مقامی عناصر کے لیے چھوڑ رہا ہے۔ یہ سامراج کسی ”بھلائی“ کے تحت نہیں کر رہا بلکہ وہ تو ان سیکٹرز کی طرف زیادہ توجہ دے رہا ہے جو اس کے فائدے کے لیے مناسب ہیں۔
حقیقت میں افریقی آبادی کی اکثریت زرعی ہے۔
(1)زراعت کا سیکٹر عام طور پر بہت زیادہ پیداوری نہیں ہے،کیوں کہ اس کی اصلاح کے لیے بڑے پیمانے پرجدید اقدامات نہیں کیے گئے ہیں۔
(2)زرعی پیداوار کی اصلاح کے لیے زیادہ سرمایہ کاری کی ضرورت ہے جو طویل امداد کے لیے ہو۔ مثال کے طور پر آب پاشی کی اسکیمیں، تربیتی مراکز کا قیام، پانی کا استعمال اور زرعی مشینری خریدنے کے لیے بہت زیادہ سرمائے اور اعلیٰ تنظیم کی ضرورت ہے۔
(3)سامراج کی جدید نوآبادیات کے لیے مساوات یہ ہے کہ:منصوبہ بندی۔ آبادکاری۔ نوآبادیات
سامراج نے معاشی طور پر ترقی یافتہ نوآبادیات کے اندر زرعی استحصال کرنے کی طرف توجہ نہیں دی ہے۔افریقہ کی کچھ ریاستوں میں آبادکاروں (SETTLERS)کو بیدخل نہیں کیا گیا۔ جیسے الجزائر میں اب آباد گار ان سیکٹرز میں جو نفسیاتی طور پر کم خطرناک ہیں، ان میں دوبارہ اپنی حیثیت بحال کرنے کے لیے سرگرم ہو رہے ہیں یا اپنی جائیدادیں بالائی طبقے کے افراد کے ہاتھوں فروخت کر رہے ہیں۔ یہ حالت افریقہ کے کچھ ممالک میں بہت زیادہ اذیت ناک ہے کہ زمینیں اب تک آبادکاروں (SETTLERS)کے قبضے میں ہے۔
موجودہ سامراجی مقصد اس امر سے عیاں ہوتا ہے کہ افریقہ میں 2/3سرمایہ کاری اہم سرمایہ دار ممالک (امریکا، برطانیہ، مغربی جرمنی، فرانس، اٹلی اور جاپان) نے روڈیشیا اور کاٹنگا
(KATANGA)میں کی ہے۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ ان ریاستوں میں کس قسم کی حکومت ہے بلکہ یہ مغربی سرمایہ اس لیے لگایا گیا ہے کہ یہ علاقے معدنی اور صنعتی (سیاسی۔ فوجی) حکمت عملی کے لیے ہمارے براعظم کی شہہ رگ کی حیثیت رکھتے ہیں۔دوسرا اہم مفاد شمالی صحارا ہے جہاں تیل، گیس، مگنیز اور لوہے کے ذخائر ہیں۔ باقی مغربی سرمایہ تجارتی کاروبار اور ایسے دیگر منصوبوں میں لگایا جاتا ہے جو نہایت دقیانوسی طریقے اور بدعنوانی کے تحت چل رہے ہیں۔
بڑی بڑی تجارتی فرمز (SCOA, UTC, UAC, PZ)افریقہ میں ہیں جو اپنے منافعے کا اظہار کمپنی کی رپورٹوں میں کرتی ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ہم نے انھیں ایک آزاد موقع فراہم کیا ہے۔ ان کمپنیوں نے خریداروں میں تہذیب اور جدیدیت کے نام پر نوآبادیاتی عادت پیدا کی ہے۔
اب ہم اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ:
(1)ہماری جدوجہد کی بنیاد اکثریت کو سرگرم عمل کرنے پر ہے۔(جیسے مزدو ر اور کسان)
(2)اس کے ساتھ ساتھ سامراج اور جدید نوآبادیات کے استحصالی مرکز کو ختم کر کے محنت کشوں کو اپنی طرف لانا ہے۔
ہمیں اپنی دھرتی کے ایک ایک انچ کو ہر کسی سے اور ہر وقت حاصل کرنا چاہیے۔
کانکنی، صنعت اور تجارت کے محنت کش
WORKERS IN THE MINES, INDUSTRIES AND TRAD
صنعتی مزدور ہماری جدوجہد میں اہمیت کے حامل ہیں۔ کیوں کہ اس سیکٹر میں مزدور جو نوآبادیات کو برقرار رکھنے کے لیے لازمی قوت ہیں، یعنی دیگر معاشی مفادات کے ساتھ ساتھ افریقہ کا استحصال جاری رکھنا وغیرہ۔
معاشی اور سماجی انقلاب میں یہ ہماری قوت اور سامراج کے خلاف لڑائی میں ہماری بھرپور طاقت ہیں۔
اہم معاشی سیکٹر میں مزدوروں کو قائل کر کے انھیں منظم کرنا اور جدوجہد میں شامل کرنا متعدد حقیقی ترقی پسندوں نے تسلیم کیا ہے۔لیکن اب ایک دیو مالائی افسانے کے ذریعے یہ ابہام پیدا کیا گیا ہے افریقہ میں محنت کش طبقہ موجود نہیں ہے۔ یہ افسانے افریقہ سیاسی ”شخصیات“ نے پھیلائے ہیں جو زیادہ تر حکومت میں ہیں یا کسی موقع پرست پیٹی بورژوا نظر آنے والی پارٹی میں ہیں۔ ان میں عوام سے خوف موجود ہوتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ انھیں حقائق نظر نہیں آتے بلکہ یہ شعوری طور پر ان سماجی قوتوں سے انکار کرتے ہیں۔ کیوں کہ ان کا آگے بڑھنا اس نظام کی تباہی ہوتی ہے جس کے ذریعے وہ دولت اور مراعات حاصل کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ کٹھ پتلی حکومت میں بھی سامراج محنت کش طبقے کو شامل کرنے سے گریز کرتا ہے۔
(ا) جیسے فرانسیسیوں نے کافی عرصے پہلے اپنی کالونیوں میں مزدوروں کو ٹریڈ یونینز بنانے کی اجازت نہیں دی۔
(ب) انگریزوں نے (TUC)مشیر اپنی کالونیوں میں رکھے تاکہ ٹریڈ یونینز مغربی سرمایہ دار ٹریڈ یونینز کے معیار کی بن سکیں۔
کٹھ پتلی اور مقامی ایجنٹوں نے استحصال کا شکار ہونے والے طبقے کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔ یہ طبقہ اب افریقہ میں پیدا ہو چکا ہے البتہ یہ دوسری بات ہے کہ اس نے ابھی خود کو پہچانا نہیں ہے کہ وہی رہبر ہے۔
یہ محنت کشوں کے وجود سے انکار کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح وہ محنت کشوں کی نظروں سے بچ جائیں گے جو انھیں ختم کرنا چاہتے ہیں۔لیکن یہ حقیقت ہے کہ یہ ”شاہی“ لوگ زیادہ وقت تک اپنی نظریں نہیں چرا سکتے۔
یہ افریقی ایجنٹ محنت کشوں کو بہت جلد رعایتیں دے کر انھیں حقائق سے دور رکھنا چاہتے ہیں۔ جب کہ مزدور تحریک کو توڑنے کے لیے کٹھ پتلی ٹریڈ یونینز بناتے ہیں جن میں:
(1) ملازمین کی ٹریڈ یونینز
(2) کلرکوں کی ٹریڈ یونینز۔ان پر کنٹرول ان افراد کا ہوتا ہے جو کبھی بھی پیداواری عمل میں شامل نہیں ہوتے اور یہی مزدور تحریک کے لیے زہر ِ قاتل ہے۔
(3)یونینز جن کی قیادت بدعنوان رہنما کر رہے ہوتے ہیں۔
انقلابی جدوجہد میں محنت کشوں کی اہم حیثیت ہونے کی وجہ سے جدید نوآبادیات ان پر بہت زیادہ توجہ دیتی ہے۔ انھیں اچھی اجرتیں دی جاتی ہیں اور یہ محسوس کرایا جاتا ہے کہ اگر سامراج چلا گیا تو وہ بے روزگار ہو جائیں گے۔ کچھ حالتوں میں تو کم سے کم قیمتوں پر گھر وغیرہ اور دیگر آسائشیں انھیں خوش رکھنے کے لیے دی جاتی ہیں۔ دوسری طرف ان کا استحصال جاری رہتا ہے اور انھیں یہ بھی باور کر ایا جاتا ہے کہ وہ ”تحفظ“ میں ہیں اور اچھی زندگی گزار رہے ہیں۔ان میں اس خیال کو تقویت دی جاتی ہے کہ وہ اس سامراجی طریقہ زیست سے ہی کچھ نہ کچھ حاصل کر سکتے ہیں جب کہ انقلاب کے نتیجے میں وہ ہر شے کھو دیں گے۔
اب ہمارے لیے یہ مسئلہ ہے کہ ہم محنت کشوں کو ان کی سماجی حیثیت کے مطابق تقسیم کریں۔ یہ مسئلہ کچھ دشوار ہے۔ دوسری طرف انقلاب میں سینکڑوں، ہزاروں افریقی محنت کش حصہ لینا چاہتے ہیں جو اپنے حالات سے واقف ہو چکے ہیں۔
محنت کشوں کو اپنے ساتھ رکھنے کے لیے جدید نوآبادیات کی کوششیں
NEO-COLONIALIST ATTEMPTS AT INTEGRATION
دشمن کی سب سے بڑی کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ محنت کشوں کو جدید نوآبادیاتی اور سرمایہ دارانہ طریقے کے تحت استحصال کرنے والے نظام میں شامل کرے۔ اسے نام نہاد”افریقیت“ کا نام دیا جاتا ہے جس میں غیر مقامی محنت کشوں کے برابر تنخواہیں دینے کا وعدہ کیا جاتا ہے۔
ہمارے محنت کشوں کا مسئلہ یہ نہیں ہے کہ مغربی محنت کشوں کو ان سے دُگنا یا پانچ گنا زیادہ معاوضہ مل رہا ہے بلکہ ان کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کا استحصال ہو رہا ہے۔ سامراج اور سرمایہ دار طریقے سے کبھی بھی نجات حاصل نہیں کی جاسکتی۔اس طریقے کوا گر للکار ا نہ گیا تو یہ زیادہ تیز اور مضبوط ہوتا جائے گا اور اس طرح یہ دشمن کے لیے زیادہ مفید ہوتا جائے گا۔
تنخواہوں کے پسِ پشت حقیقت
THE TRUTH BEHIND THE SALARIES
جنوبی افریقہ میں جہاں افریقی محنت کش غلامی کی حالت میں رہتے ہیں وہاں فسطائی نسل پرست حکومت کانوں اور صنعتوں میں کام کرنے والے محنت کشوں کو دیگر افریقیوں سے زیادہ معاوضہ دیتی ہے۔ اب اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ظالم حکومتی ٹولے سے محنت کشوں نے کچھ حاصل کیا یا انھیں دیگر افریقی محنت کشوں کے مقابلے میں ”ترجیح“ حاصل ہے۔ بلکہ یہ تنخواہیں اس امر کا واضح اشارہ ہیں کہ دشمن اس قوت کے بغیر نوآبادیات اور جدید نوآبادیات میں کچھ نہیں کر سکتا۔مثال کے طور پر اگر افریقی کانوں کے مزدور اپنی محنت ملکی معیشت میں استعمال نہ کریں تو ملکی معیشت مکمل طور پر مفلوج ہو جائے گی۔ یہی افریقی محنت کشو ں کی سیاسی قوت ہے جو آج تک ہمارے محنت کشوں نے محسوس نہیں کی ہے۔
موجودہ وقت میں یہ عیاں ہوگیاہے کہ افریقی محنت کش صرف تنخواہیں بڑھانے کے لیے ہڑتالیں کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اس حالت میں مندرجہ ذیل امور میں سے ایک ضروری ہے:
(1)جن جگہوں میں جن حالات میں وہ کام کر رہے ہیں، اس عمل کے سوا کوئی دوسرا عمل نہیں کر سکتے۔
(2)یہ بات اب تک انھوں نے نہیں سمجھی کہ انھیں اور کچھ کرنا ہے۔
پہلی حالت دشمن کی طرف سے کیے گئے اقدامات کا نتیجہ ہے جب کہ دوسری حالت انقلابی کھوٹ کا نتیجہ ہے۔
(ا) دشمن کو خوف وہراس کے ماحول کی ضرورت ہوتی ہے اس کے لیے وہ زیادہ تر دانشور اور ہنرمند محنت کشوں کو بے خبری کی حالت میں رکھنے کے لیے انھیں گرفتار کرتا ہے۔
(ب) افریقی انقلابی ابھی تک محنت کشوں کو یہ نہیں سمجھا سکے ہیں کہ آزادی کی جدوجہد میں وہ کتنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔
نہایت ابھری ہوئی حالتوں کے تحت خالص معاشی جدوجہد کوئی مثبت اثر ہے۔خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں کانیں اور صنعتیں ہیں۔ انقلابی آزادی کی تحریک کے رہنماؤں کے لیے ضروری ہے کہ:
(1)سچ ظاہر کریں۔
(2)افریقی محنت کشوں کے ساتھ قریبی اور سرگرم تعلق رکھیں۔
(3)افریقی محنت کشوں کی تحریک کو منظم طریقے سے قومی جدوجہد سے جوڑیں۔ اس جدوجہد کا مقصد مکمل طور پر سامراج مخالف تحریک اور براعظم کی سطح پر سوشلزم کے لیے جدوجہد کرنا ہو۔
سامراجی گروہوں کی ناکامی
FALURE OF IMPERIALIST TALTS
محنت کشوں کو اپنی حقیقی طاقت سے ناواقف رکھنا، انھیں جدید نوآبادیات کے اندر منظم ہونے سے روکنا، محنت کشوں کی تحریک کو توڑنا اور افریقی سماج کی حقیقتوں سے دور رکھنا شامل ہوتا ہے۔ اسے ناکام بنانے کے لیے یہ لازمی ہے کہ افریقی محنت کشوں کو تحرک میں لایا جائے۔
مزدور تحریک اور انقلابی فوجی حکمتِ عملی
THE WORKER MOVMENT AND REVOLUTIONARY STRATEGY
ان علاقوں میں جہاں دشمن کا کنٹرول ہوتا ہے اس علاقے کے اقتصادی سیکٹر میں محنت کش:(ا) عوام سے مکمل طور پر کٹا ہوا نہیں ہوتا ہے۔(ب) ورکنگ سائیٹ میں مستقل طور پر نہیں رہتا ہے۔
دشمن کے اہم معاشی مقامات میں کافی حصہ گشتی (NOBILE)مزدوروں کا ہے۔ یہ دیہاتوں اور اردگرد کے دیگر علاقوں سے کارخانوں، کانوں، باغات، پورٹ اور ٹرانسپورٹ کے مراکز میں کچھ وقت کے لیے کام کرنے آتے ہیں۔ ان سے رابطہ اس وقت ہوتا ہے جب یہ واپس جاتے ہیں اور یہ دوبارہ اس وقت بحال ہوتا ہے جب یہ دوبار واپس کام پر آتے ہیں۔
اس گشتی (MOBILE)مزدورکو دشمن شعوری طور پر اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتا ہے تاکہ یہ محنت کشوں کے ساتھ مکمل تعاون نہ کر سکیں۔
MOBILTYانقلابی تحریک میں خود اہم مقام رکھتی ہے۔ گشتی مزدور دیہی آبادی اور جدید نوآبادیات کے اقتصادی مراکز میں رابطہ رکھ سکتے ہیں۔
اگر ہمارے انقلابیوں کو انھیں پڑھانے اور منظم کرنے کے لیے کام کرنے کی جگہوں پر تکالیف یا دشواریوں کا سامنا ہو تو ان سے مندرجہ ذیل مقامات پر ملا جا سکتا ہے:
(1)کام پر جانے والے مقامات (اسٹاپ وغیرہ) پر۔
(2)آنے جانے والے مقامات (ہوٹل وغیرہ) پر۔
کام پر جانے والے مقامات پر ملتے وقت سیاسی تعلیم پر زور دینا چاہیے۔اگر ایک دفعہ محنت کش مسائل کو سمجھ گئے تو یہ چلتی پھرتی پروپیگنڈا ٹیمیں،سیاسی ہڑتال اور انقلابی نظریے کا پھیلاؤ دشمن کی معاشی شہہ رگ تک پہنچ سکتا ہے۔
محنت کش مختلف ذرائع اور سطح پر انقلابی جدوجہد میں شامل ہوتے ہیں۔ ان حالات کے تحت طریقے اور دلائل تبدیل ہو سکتے ہیں۔محنت کشوں کا کوئی بھی آگے بڑھا قدم ہماری انقلابی تحریک کا حصہ ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر:
(1)وہ انٹر پرائزز جو بیرونی سرمایہ دار کے کنٹرول میں ہیں اور وہاں محنت کش تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ کر رہے ہوں۔
(2)وہ انٹر پرائززجو مقامی سرمایہ دار کے کنٹرول میں ہیں اور وہاں محنت کش ہڑتالیں کر رہے ہوں۔
(3)قومی ملکیت میں یا اسٹیٹ انٹر پرائزز جہاں محنت کش بہتر حالاتِ کار کا مطالبہ کر رہے ہوں۔یا نااہل بدعنوان انتظامیہ کے خلاف ہتھیار اٹھا رہے ہوں۔
یہ تین الگ الگ جنگیں عظیم انقلابی آزادی کی جدوجہد کے حصے کے طور پر ہماری سیاسی فوجی تنظیم AACPCاورAAPRAکے تحت لڑی جاتی ہیں۔
طلبا کا کردار
THE ROLE OF STUDENT
نوجوان انقلاب سے تعلق رکھتے ہیں ہماری یونیورسٹیاں، کالج، اسکول دشمن کے علاقے میں اور ان علاقو ں میں جہاں دشمن کے ساتھ لڑائی جاری ہے،انقلابی احتجاج کا مرکز ہو سکتے ہیں۔ طلبا کو محنت کشوں کے ساتھ قریبی رابطہ رکھنا چاہیے۔ یہ محنت کشوں کے مظاہروں، ہڑتالوں، بائیکاٹ اور مسلح اقدامات کے لیے بھی ضروری مدد فراہم کرسکتے ہیں۔طلبا کا محنت کشوں کے ساتھ تعاون انقلاب دشمنوں کے انتظامات کو مکمل طور پر بے اثر اور تبدیل کر سکتا ہے۔
قوم پرست بورژوازی
THE NATIONALIST BOURGEOISIE
تعداد کے لحاظ سے یہ سامراج مخالف مقامی بورژوازی کم ہوتا ہے۔لیکن یہ ہماری آزادی کی تحریک خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں دشمن کے ساتھ لڑائی جاری ہے وہاں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
مثال کے طور پر یہ اس حالت میں ہوتے ہیں کہ کٹھ پتلی حکومت کے اصل سامراجی مالک کو ظاہر کرے اور سامراج مخالف جدوجہد کی مدد کرے۔ ان کی سماجی حیثیت اور حب الوطنی قابل قدر ہوتی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ نکمے انقلابی اور مراعات یافتہ ہوتے ہیں،جس کی وجہ سے انھیں ہمارے سوشلسٹ مقاصد سے ہمدردی نہیں ہوتی ہے۔ اس امر سے ہمارے انقلابی مایوس نہ ہوں۔یہ ہمارے دو مقاصد آزادی اور اتحاد تک بھرپور مدد کریں گے اور ان میں سے بہت سے جدوجہد کے دوران سوشلزم کے ضرورت کے قائل ہو جائیں گے۔
باہر سے آئے ہوئے انقلابی
REVOLUTIONARY OUTSIDERS
باہر سے آئے ہوئے انقلابیوں میں مندرجہ ذیل شامل ہوتے ہیں۔
(1)وہ افریقی جو اپنے بالائی طبقاتی نظریات سے باغی ہو گئے ہیں۔
(2)وہ افریقی مر وخواتین جو سیاسی اختلاف کے باعث ملک سے باہر رہتے ہیں۔
(3)وہ بیرونی افراد جو مختلف اسباب کے باعث افریقی انقلاب میں دلچسپی رکھتے ہیں اور انقلابی جدوجہد میں سرگرمی سے حصہ لینا چاہتے ہیں۔
ہماری عظیم جدوجہد میں تمام لوگوں کے لیے جگہ ہے۔ہمارے مقاصد ایک جیسے ہیں اس لیے لوگوں کی قوت کو فیصلہ کن، انقلابی لچکدار اور کثیر الجہت حملہ آور قوت میں تبدیل کریں۔
عورتوں کا کردار
THE ROLE OF WOMEN
افریقی عورتیں پہلے ہی خود کو انقلابی جدوجہد میں اہم ثابت کر چکی ہیں۔اپنے مختلف ممالک میں انھوں نے آزادی کی مدد کی ہے۔ کچھ حالات میں تو ان کے مظاہروں میں حصہ لینے اور دیگر ایسے اقدامات کے مثبت نتائج مرتب ہوئے ہیں۔ ان کا ایک اچھا انقلابی ریکارڈ ہے اور یہ ہماری سیاسی فوجی تنظیم کے لیے اہم قوتیں ہیں۔
سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ ہم افریقی عورت کی فطرت کو انقلابی جدوجہد کے حوالے سے جانچیں اور پھر یہ طے کر یں کہ یہ کیسے اچھی طرح کام کر سکتی ہے اور آگے بڑھ سکتی ہے۔
ذیل میں ایک ترتیب دیا گیا سوال نامہ ہے جس سے ہمارے انقلابی کیڈرزضروری امور اور افریقی سماج میں عورت کی حالت کا جائزہ لیں گے۔
(1)شماریاتی اور خصوصیاتی حوالے سے افریقی عورت کی روایتی نسلی سما ج کے اندر کیا حیثیت ہے؟ اس کی حیثیت نوآبادیات، جدید نوآبادیات کے دوران یورپی مسیحیت اور اسلام میں کیا ہے؟۔
(2)اس کی مظلوم حیثیت سے سامراج کا کیا تعلق ہے؟ اس تعلق کو ہم اپنے انقلاب کے لیے کیسے استعمال کریں؟۔
یہ تعلق زیادہ تر معاشی نوعیت کا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر بیرونی تجارتی فرم میں کام کرنے والی عورتوں کے تعلقات معاشی ہوتے ہیں۔ کچھ حالتوں میں یہ تعلقات ذاتی ہوتے ہیں۔ نوآبادیات اور جدید نوآبادیات میں قحبہ خانہ پیسے والے افراد سے ذاتی اور معاشی تعلق رکھنے کا سبب بنتا ہے۔ ان تعلقات کو جاسوسی کے حوالے سے سیاسی طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔
(3)افریقی عورتوں کا طویل انقلابی جدوجہد میں کردار، روایتی نسلی جگہوں سے آنا اور اس کے ساتھ ساتھ ان حقوق اور فرائض کی کیا اہمیت ہے؟ان کا جدوجہد میں حصہ لینا ان کے خیالات اور خوشی پر کتنا اثر انداز ہوتا ہے؟۔
(4)عورتوں کی پیداوری عمل میں کیا اہمیت ہے؟
(5)کیا وہ محنت کرنے کے لائق ہیں؟ کس نسبت سے؟
(6)جاگیردارانہ نظام میں بیک وقت زیادہ بیویاں رکھنے کی وجہ سے افریقی عورت کی کیا حالت ہے؟کیا اس طرح افریقی عورتوں کا استحصال ہو رہا ہے؟۔
(7)کیا ان حالات میں کہا جاسکتا ہے کہ افریقہ میں عورتیں مارکسی نقطہ نظر سے طبقاتی اور عورت ہونے کی حیثیت سے دہرے استحصال کا شکار ہیں؟۔
ہر سماجی نسلی گروپ کی چھان پھٹک کرنے کے بعد مثبت جوابات آتے ہیں اور منفی جوابات کے لیے ہمیں ان کی ماہیت کو جانچنا چاہیے۔ ہمارا آخری مقصد جو کہ افریقہ بھر میں ایک ہی ہے کہ افریقہ عورتوں میں انقلابی ہلچل پیدا کریں۔
عورت دشمن کے علاقے میں
WOMEN IN ENEMY JHELD ZONES
عورتوں کو دشمن کے قبضے میں آئے ہوئے علاقے میں سیاسی اور تنظیمی کام کرنا چاہیے۔ عورتوں کا ملک کے نوجوانوں پر اچھا اثر ہے کیوں کہ یہ آزادی کے لیے لڑنے والوں کی بیویاں، بہنیں اور مائیں ہیں۔ اس لیے انھیں انقلابی جدوجہد میں شامل کیا جائے۔
کسی بھی ملک کی انقلابی بیداری وہاں کی عورتوں کی سیاسی پختگی سے لگائی جاتی ہے۔
یہ ان بھاڑے کے سپاہیوں کے اخلاقی دیوالیہ پن، ذاتی مفاد اور بدکرداری کو اپنے مفاد میں استعمال کر سکتی ہیں۔
عورتیں انقلابی اڈوں اور آزاد علاقوں میں
WOMEN IN THE BASIS AND LIBERATED AREAS
ان علاقوں میں عورتیں اور ادھیڑ عمر کی عورتیں میل جول کے طریقوں کو برقرار رکھیں۔ پُر اعتماد ہونے اور مشکلات کا سامنا کر کے حالات کو یقینی بنائیں۔ ان علاقوں میں مرد ہر وقت جنگ کے لیے تیار رہیں۔
عورتوں کی تربیت
THE TRAINING OF WOMEN
اگر عورتیں اُس جسمانی، سماجی اور نظریاتی معیار پر پورا اترتی ہیں جو بھرتی اور کنٹرول کمیشن نے مقرر کیا ہے تو پھر وہ تربیتی مراکز میں اسی حیثیت سے شامل ہو سکتی ہیں۔ عورتوں کو مردوں کی ذمہ داریاں اور اختیارات بھی سونپے جا سکتے ہیں۔ عورتوں کے لیے کورس ان کی صلاحیتوں اور جسمانی قوت کے تحت ترتیب دیا جائے گا لیکن زیادہ زور مندرجہ ذیل امور پر دیا جائے گا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔