بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنماؤں نے کہا ہے کہ بی این پی کے سرخیل رہنماء شہید امان اللہ زہری اور ان کے ساتھیوں کے قتل میں ملوث لوگوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کیلئے سیاسی اور جمہوری انداز میں پارلیمنٹ سمیت تمام فورم پر سیاسی اور جمہوری انداز میں اس قتل وغارت گیری کے خلاف لواحقین کوانصاف کی فراہمی تک جدوجہد کرینگے اور اس کی خاطر کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کرینگے قبائلی جھگڑوں کے ذمہ دار ریاست ہے اگر سزاء و جزاء ہوتی تو آج یہ صورتحال پیدا نہ ہوتی ریاست کی کمزور ی کی وجہ سے ہمارے فیصلے عدالتوں کے بجائے سڑکوں پر ہوتے ہیں ٹیکس حکومت کو نہیں ریاست کو دیتے ہیں ان خیالات کااظہار بی این پی کے مرکزی سینئرنائب صدر ملک عبدالولی کاکڑ، موسیٰ بلوچ، غلام نبی مری، اراکین اسمبلی زینت شاہوانی، ٹائٹس جانسن ودیگر نے کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز زہری میں رونما ء ہونے والے واقعے کی اصل حقائق اور محرکات سامنے لانے سے پہلے اس واقعے کی ذکر ضروری سمجھتے ہیں جس کے نتیجے میں یہ دلخراش سانحہ پیش آیا جب 25اکتوبر 2009کو نور گامہ زہری بازار میں دن دہاڑے بلوچستان قومی تحریک کے سرخیل رہنماء شہید نواب بابو نوروز کان زہری کانوا سے اور شہید میرا امان اللہ کان زہری کے جوان سال فرزند میر رریاض احمد زہری کو شہید کیا گیا لواحقین نے اس وقت واقعے میں ملوث افراد کے خلاف ایف آئی آردرج کیا لیکن اس وقت کی حکومت نے شہید ریاض احمد زہری کے قتل میں ملوث لوگوں کی گرفتاری تو کیا ان کے خلاف کوئی کارروائی تک نہیں کی اور درج ایف آئی آر کو نظر انداز کیا اگر اس وقت کی حکومت کارروائی کرتی تو شاید آج کا یہ واقعہ رونماء نہیں ہوتا۔
رہنماؤں نے مزید کہا کہ بلوچستان نیشنل پارٹی کے سر خیل وبانی رہنماء شہید نواب نوروز خان زہری کے فرزند نواب امان اللہ خان زہری اپنے ساتھیوں کے ہمراہ جمعہ اور ہفتہ کے درمیان شب 17اگست 2019 کو پارٹی کے مرکزی کمیٹی کے ممبر سردار نصیر احمد موسیانی کے خالہ کی نماز جنازہ اور تدفین میں شرکت کے بعد رات 1بجے واپس اپنے گھر نورگامہ زہری کی طرف آرہے تھے اس کے ساتھ فیملی بھی تھا جنہیں بلبل زہری کے مقام پر گھات لگائے ہوئے حملہ آوروں نے مختلف اطرف سے ان کی گاڑی کو نشانہ بنا یا۔
انہوں نے کہا کہ اس واقعے کو دہشتگردی اور قبائلی جھگڑا سے ہٹ کر ہمارے قبائلی مثبت روایات میں خواتین کو احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے دشمن کمزور ہوں یا طاقتور ہوں لیکن خواتین کی موجودگی میں کسی پر بھی ہاتھ نہیں اٹھا یا جاتا ہے اور اس وقت مخالف راستہ دیا جاتا ہے جب ان کے ساتھ خواتین اور معصوم بچے شامل ہوں نواب امان اللہ خان زہری اپنے ساتھیوں کے ہمراہ تین گاڑیوں پر مشتمل گھر کی طرف جارہے تھے اس میں ان کے کمسن 14سالہ پوتہ میر مردان زہری،حافظ نثار احمد زہری اور سکندر مگسی کو قتل وغارت کا نشانہ بنا یا گیا اس وقت ایک گاڑی میں خواتین بھی موجود تھے جو اس حملے میں خواتین اور بچوں کو بھی نہیں بخشا گیا جو معجزانہ طور پرمحفوظ رہیں اس واقعے نے ہمارے مثبت وقبائلی روایات رسم ورواج جس انداز میں پاؤں تلے روند دے گئے اور پامال کیاگیا اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتا جو کہ قبائلی روایات میں جرم تصور کیا جاتا ہے ایسے لوگ جو اپنے آپ کو قبائلی روایات کا امین کہتے ہیں اس طرح کے جرم کا مرتکب ہونے سے قبائلی روایات کیلئے افسوس کا مقام ہے۔
رہنماؤں نے کہا کہ شہید امان اللہ زہری اور ان کے ساتھیوں کے قتل میں ملوث لوگوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کیلئے سیاسی اور جمہوری انداز میں پارلیمنٹ سمیت تمام فورم پر سیاسی اور جمہوری انداز میں اس قتل وغارت گیری کے خلاف لواحقین کوانصاف کی فراہمی تک جدوجہد کرینگے اور اس کی خاطر کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کرینگے۔
دریں اثناء بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی کال پر آج زہری واقعے کے خلاف بلوچستان کے پانچ اضلاع، خضدار، مستونگ، قلات، سوران اور آواران میں احتجاج کیا گیا جس میں پارٹی کارکنان اور دیگر افراد کی بڑی تعداد میں شرکت کرکے اپنا احتجاج ریکارڈ کیا گیا۔
دوسری جانب نواب امان اللہ زہری کے قتل کے ایف آئی آر میں شامل نائب مرزا خان 5 ساتھیوں سمیت گرفتار کر لیے گئے۔
ذرائع کے مطابق لیویز فورس نے کارروائی کرتے ہوئے بی این پی کے مرکزی رہنماء نواب امان اللہ زہری اور ان کے ساتھیوں کے قتل میں ملوث ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا۔