فلسفہ محکومیت – نود شنزمندی

132

فلسفہ محکومیت

تحریر: نود شنزمندی

دی بلوچستان پوسٹ

ظلم کے داستان کو اگر کسی تاریخ کی کتاب میں سمو کر دیکھا جائے تو یہ ہمیشہ ظلم سہنے والے سے زیادہ ظلم ڈھانے والے کو قصوروار ٹہراتا ہے، استحصالی سامراج محکوم قوموں کو اس طرح رکھتا ہے کہ اگر وہ ان اقوام پر کرم بھی کرے تو وہ ایک جھوٹی اور دیکھاوےکی عنایت اور فراخدلی ہوتی ہے، جو اس وقت ختم ہوتی ہے جب اسکے حربے رنگ لاتے ہیں یعنی وہ کسی اسٹریٹجی کے تحت اپنے تیور میں وقتی نرمی لاتا ہے تاکہ وہ اپنے اہداف حاصل کرے۔

جب کسی ایسی حقیقت جس پر سوال اٹھایا جا سکے لیکن اسکو مکمل طور پر منسوخ یا نفی نہیں کیا جا سکتا تو وہ ایک سبجیکٹیو (subjective) مضمون بنتا ہے،، یعنی لوگوں کی سوچ پر انفرادی طور پر منحصر ہوتا ہے کہ اسے سچ تسلیم کریں یا نہ کریں، ایسے سچ جسکی بنیاد مشکوک ہوں البتہ منسوخ نہ ہوں تو وہ ایک المیہ اور مِتھ بن جاتے ہیں، جنہیں بہت سے لوگ مانتے اور یقین کرتے ہیں، جبکہ ایک طبقہ ان سے منحرف ہوتا ہے، یہ طبقہ ان سوچوں کو اپنے اوپر ایک ایسی بندی بنانے والا آلہ سمجھتا ہے کہ وہ انسان کو اسکے فہم کے مطابق سوچنے سے قاصر کرتا ہے جو ایک جاندار کو بے جان اشیاء بنانے کے مترادف ہے۔ یقیناً سامراج چاہتا ہے کہ اسکے محکوم نیم انسان بن کر بنا سوال کیئے اسکی پیروی اور غلامی کریں۔

اور اگر فلسفہ محکومیت کو دیکھا جائے تو یہ بھی ایک ایسی حقیقت ہے جو اسے سمجھ لے انسان ہے اور اگر نا سمجھے تو غیر انسان یا نیم انسان ہے، اور اس سے نجات دلانے کا عمل ایک قائم حقیقت ہے کہ جب تک سہوگے،سہتے رہو گے، محکوم کا یہ سوچنا کہ حاکم اسے نجات دلائیگا،ایک احمقی کے سوا کچھ نہیں، محکوم کیلیے اسکا آئیڈیل اور مثال مظلوم اور طاقت انکی سوچ اور اس غلاظت سے نجات دلانے کا جذبہ ہوتا ہے، اسی حقیقت کو دو طرح سے اینلائز اور جانچا اور پرکھا جاتا ہے، ایک یہ کہ آیا یہ سچ کسی فرد یا کسی مجمع کے مفاد کو ٹھیس نہیں پہنچا رہی ؟ دوسری یہ کہ کسی بھی طبقے کے مفاد کے ساتھ اسکا ٹکراو ممکن ہی نہیں، اب جو لوگ سمجھتے ہیں کہ انکے مفاد کی نفی عین ممکن ہے، وہ عموماً سامراج یا اسکے لوگ ہوتے ہیں، سامراج کے لوگوں کی شمولیت لازمی نہیں کہ کسی قوم کے استحصال سے منحصر ہوں بلکہ انکے مفاد سامراج کے وجود سے جُڑے ہوئے ہوتے ہیں، اسکی مثال محکوم طبقے سے تعلق رکھنے والے چند منحرف لوگ ہوتے ہیں جو سامراج کیلئے بطور آلہ کار کام کرتے ہیں، جو شاید ڈرو خوف، حقیقت سے لاعلمی یا کسی معاشی، سماجی یا کسی اور مفاد کی تکمیل کیلے آنکھ دھرے سامراج کا ساتھ دیتے ہیں۔

سامراج کا مزاج محکوم کے رویے سے منسلک ہے، اگر محکوم اور پسا ہوا طبقہ یہ سوچ اپنے اندر ابھار لے اور اسکو وہ عملی جامعہ پہنانے کیلئے جہد مسلسل کیلئے کمربستہ ہو تو یہ سامراج کیلئے ایک لمحہ فکریہ ہے۔

دوسری طرف اگر محکوم خواب خرگوش میں مبتلا ہو تو وہ مزید استحصال کے دلدل میں پھنستا چلا جاتا ہے، کیونکہ سامراج کی قوت قبضے کو تقویت دینے پر صرف ہوتی ہے، نہ کہ کسی لاحق خطرے سے نمٹنے کیلئے استعمال ہوتی ہے۔ بنیادی طور پر نجات دلانے کا عمل کسی نیم انسان( محکوم )اور غیر انسان( حاکم ) کو انسان بنانا ہے۔ ہمیشہ انقلابی اپنے یعنی مظلوم کے ساتھ ساتھ ظالم کو بھی نیم انسان یا غیر انسانیت سے نجات دلا کر انسان بنانے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ نجات دلانے والے اگر نجات دلانے کے بعد خود ظلم کی داستان رقم کریں تو وہ انقلابی اور نجات دہندہ نہیں کہلائے جاتے اور اس جہد کے نتیجے میں حاصل کیا گیا نجات، نجات نہیں کہلاتا۔ بلکہ مظلوم کو دائمی بربریت سے نجات ہی کا نام انقلاب ہے۔ بنیادی طور پر نجات دلانے کا عمل کسی نیم انسان( محکوم )اور غیر انسان( حاکم ) کو انسان بنانا ہے۔ ہمیشہ انقلابی اپنے یعنی مظلوم کے ساتھ ساتھ ظالم کو بھی نیم انسان یا غیر انسانیت سے نجات دلا کر انسان بنانے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ نجات دلانے والے اگر نجات دلانے کے بعد خود ظلم کی داستان رقم کریں تو وہ انقلابی اور نجات دہندہ نہیں کہلائے جاتے اور اس جہد کے نتیجے میں حاصل کیا گیا نجات، نجات نہیں کہلاتا۔ بلکہ مظلوم کو دائمی بربریت سے نجات ہی کا نام انقلاب ہے۔ قبضے کو توڑنے کیلئے مکالموں کی نہیں بلکہ موثر ڈائیلاگ کی ضرورت ہوتی ہے، اور اسکو “ڈائیلاجکس”اور “رد ڈائیلاجکس”کہا جاتا ہے جو پہلا ہے اسکے اجزا آزادی دلانے میں کردار ادا کرتی ہیں،اور نجات دہندہ ہوتی ہیں، جو کہ ایک محکوم کا اپنوں سے مدد اور کمک، یکجا ہونا، منظم تنظیم کاری، اور سوچ کے ساتھ عمل ،ہوتے ہیں،اور “رد ڈائیلاجکس”ہمیشہ سامراج کی تالی میں بیٹھ کر دم لیتا ہے،اور اسکے اجزا سامراج کے حق میں ہوتے ہیں، ایک دوسرے میں تضاد پیدا کرنا، خوف میں مبتلا کرنا، اور اس سوچ کو انجیکٹ کرنا جو سامراج سے نزدیک کرے۔

محکوم کو ظلم سے زیادہ اور نہایت ہی آسانی سے محکوم اسکی بے بس حالت نہیں بلکہ سامراج کی دی ہوی مضمون جسے وہ بندی ہوتا اور اس پر لازم ہوتا ہے کہ اسے پڑھ کر اسی کی پیروی کرے، اسکو بنا کوئی سوال کیے ماننا محکوم کرتا ہے،

آپ کسی محکوم کو اسکی محکومیت کیلئے ذمہ دار نہیں ٹہرا سکتے، کیا کسی شخص کو اسکے ساتھ ذیادتی کیلئے ذمہ دار ٹہرایا جاسکتا ہے؟ یا ذیادتی کرنے والا ذمہ دار ہے؟ کسی ایسے شخص کو ذمہ دار ٹہرایا جاسکتا ہے جسے پوری زندگی نفرت ملی ہو؟ یا نفرت کرنے والا ذمہ دار ہے ؟ کسی ایسے شخص کو مجبور ہونے کیلئے ذمہ دار ٹھہرایا جاسکتا ہے ؟ یا مجبور بنانےوالا ذمہ دار ہوتا ہے؟۔ یقیناً جو بندہ سہہ رہا ہوتا ہے وہ اس ذمہ داری سے بری ذمہ ہے لیکن آپ ظلم ڈھانے والے کو صرف اس وقت قصوروار ٹہراسکتے ہو جب مظلوم اپنی نجات کیلیے ہاتھ پھیر مار رہا ہو، مظلوم آنکھ بند کرکے سہتا رہے، اس صورت میں قصور ظالم کا نہیں بلکہ مظلوم کا ہوتا ہے، کسی انسان کو اسکے سوچ کے مطابق زندگی جینے سے روکنا اور اسکو اپنے آپ میں سچ کو تلاشنے سے محروم رکھنا فردی استحصال کے ذمرے میں آتا ہے۔

یقیناً انسان کو محکوم بنانے کیلئے فردی استحصال سے دو چار کیا جاتا ہے، آزادی کی طرف ایک قدم خوا وہ اس بات کو سمجھنے کی حد تک کہ حاکم اپنے تعین کردہ حدود کو پامال کررہا ہے، یہ سامراج کے رویے اور مزاج میں تبدیلی کا باعث بنتا ہے، محکوم کو دبانا سامراج کا مقصد نہیں بلکہ کسی قوم کے استحصال کیلیے مجبوری بنتی ہے۔

اس طبقے سے فکر مند سامراج اپنے تمام حربوں کو بروئے کار لاتا ہے اور اسی گروہ کو کچلنے کی کوشش کرتا ہے، سچ کی تلاش اور اپنے آپکو نجات دلانے کی تپش اپنے دل میں لیئے اگر محکوم اس سامراجی مار کو برداشت کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں، اور اسکے خلاف متحرک ہوتے ہیں تو یہ ابدی آزادی پر منتج ہوتی ہے۔

آذادی نہ کہ ایک قدرت کا دیا ہوا تحفہ ہے اور نا ہی حاکم اپنے محکوموں کو تحفے میں عنایت کرتا ہے، چیز جتنی خوبصورت ہوتی ہے اسکی قیمت اتنی ہی زیادہ اور بڑی ہوتی ہے، بقول “مارٹن لوتھر کنگ” “جب بلا جواز کے عذاب لوگوں پر آتے ہیں تو سمجھ لیں کہ یہ ایک دوسرے عذاب جو اس سے کہیں گنا ذیادہ بڑا ہے اس سے نجات دلاتا ہے” کیونکہ جب انسان کا بس اپنے سے طاقتور پر نہیں چلتا تو وہ اپنے سے کمزور پر اپنا غصہ نکالتا ہے بلکہ وہ اس عمل سے متحرک طبقے کی سوچ کو انکے درد کی طرف مبذول کرتا ہے جنکے درد نے انکو عذاب سے بچانے کا بھیڑا اٹھانے پر مجبور کیا ہوتا ہے، اگر مظلوم طبقے پر ظلم اپنے ہی محکوم میں سے ایک منحرف گروہ ڈھا رہا ہے تو یہ آذادی کو مزید نا ممکن کرتی ہے، کیونکہ یہ رد ڈائیلاجکس ہے ،اور اگر یہ ظلم سامراج ڈھا رہا ہو تو یہ محکوم کے نفرت کو ہوا دیتی ہے، اور ایک جہد مسلسل کیلیے راہ ہموار کرتی ہے۔

اپنے لوگوں میں آپسی مکالموں کی بجائے مضمون پر دھان دینی چاہیے اور انکو اجاگر کر کے ان پر عمل پیرا ہونا ہی جہد مسلسل کو ہوا اور اسکے آگ کیلیے ایندھن کا سبب بن سکتی ہے،اور اگر ظلم سامراج کی طرف سے ڈھائی جارہی ہے تو یہ اس نجات دہندہ تحریک کیلیے ایندھن کا کام کرتی ہے اور اس سامراج کے خلاف نفرت کو ہوا دیتی ہے، اس نفرت کے نتیجے میں ایک جہد مسلسل کی راہ ہموار ہوتی ہے، اپنے مجالس میں محکوم طبقہ مکالموں کی بجائے مضمون پہ غور اور دھان دیں- مکالموں اور تجزیوں میں شخصیت سے ذیادہ ایشو یعنی زیر بحث موضوع اہمیت دیتی ہے۔ کیونکہ مضمون ہی راہ اور مقصد کا تعین کرنے میں کارآمد ثابت ہوتی ہے نہ کہ مکالمے اور گفتگو۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔