غلامی کا ترنوالا نسلیں بنتی ہیں – شہیک بلوچ

566

غلامی کا ترنوالا نسلیں بنتی ہیں

تحریر: شہیک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

غلامی کی اندھیروں کا تر نوالا نسلیں ہی بنتی ہیں۔ غلامی نسلوں کے مستقبل کو ہڑپ جانے والا درندہ ہے۔ غلامی حال کی سب سے بڑی اذیت ہے۔

روسو کے بقول “انسان پیدائشی طور پر آزاد ہوتا ہے لیکن ہر جگہ غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔”

نوآبادیاتی نظام تیسری دنیا کے لیے کسی کینسر سے زیادہ بدتر اور تباہ کن ثابت ہوئی، نسلیں اجڑ گئیں۔ نوآبادیوں کو سونے کی چڑیا سے پر ٹوٹی چڑیا بنا کر چھوڑنے کے بعد وحشی بھیڑیوں کے آگے ڈال دیا گیا۔ غلامی کے زخموں سے لہو لہان نسلوں کے زخموں پر نمک پاشی کے لیے مزید سازشیں ترتیب دی گئیں۔

نوآبادیاتی نظام میں زندگی ایک بہت بڑی اذیت بن کررہ جاتی ہے۔

کسی قوم پر قابض ہوکر اس کے تاریخی جغرافیائی حیثیت کو تاراج کرنا، اس کے تاریخ کی جگہ اپنی مصنوعی تاریخ مسلط کردینا، اپنے نمائندوں کے ذریعے ان کو کنٹرول میں رکھنا، خوف، بے روزگاری، سماجی جرائم، منشیات کو بطور وباء پھیلانا۔ ان تمام تر وجوہات کے باوجود بھی اگر کوئی سمجھتا ہے کہ بطور نوآبادی آپ امن کیساتھ رہ سکتے ہیں تو وہ نجانے کونسے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔

آقا و غلام کے رشتہ میں برابری کی کونسی گنجائش ہوتی ہے کہ ہم خود کو طفل تسلی دے سکیں۔ شعور کیوں اس بات کو تسلیم کرے جس کی کوئی حقیقت ہی نہیں جو ایک دھوکا ہے۔ غلامی میں آسودگی سب سے بڑا دھوکا ہے کیونکہ غلام کبھی بطور انسان ایک اچھا معیار زندگی نہیں گذار سکتا، بطور غلام یہ اس کے اختیار میں ہی نہیں۔

پچھلے اڑسٹھ سالوں میں بلوچ نے کونسا اختیار استعمال کیا ہے؟ آدھے بلوچستان کو چھوڑ دیں ایک شہر کی آپ مثال دیں جہاں نوآبادیاتی نظام کے ثمرات نظر آتے ہوں۔ دن بہ دن مزید ابتری آرہی ہے۔ مزید خوف، مزید وحشت اور یہاں تک کہ نوآبادیاتی نمائندوں کے چناو میں مزید غلیظ پتے باز جیب کتروں کا انتخاب کیا جارہا ہے۔ نمائندے چنتے وقت اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ سماج میں جس قدر غلیظ کردار ادا کرسکتا ہے اسے اتنے ہی زیادہ مراعات سے نوازا جاتا ہے۔

جبر و بربریت کے خلاف اٹھنے والی تحریک اس دھرتی کے لیے آکسیجن ہے، شعور کو زندہ رکھنے کے لیے جدوجہد کی آکسیجن لازم ہے اور ہم زندہ اسی تحریک کی بدولت ہیں۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ جبر کا استعمال صرف تحریک کو دبانے کے لیے کیا جارہا ہے تو وہ غلط ہے کیونکہ تحریک اٹھی ہی جبر کے خلاف ہے، تحریک نے ریاست کے مکروہ فاشسٹ چہرے کو زیادہ واضح کردیا کہ یہ ریاست اس حد تک غیر انسانی ہے۔

بلوچستان میں جنم لینے والا المیہ آج کا نہیں بلکہ یہ اسی دن شروع ہوا جب بلوچ ریاست پر بزور طاقت قبضہ کیا البتہ گذرتے وقت کے ساتھ یہ وسعت اختیار کرتا چلا گیا۔

اس جبر نے شروع دن سے ہی بلوچ کو گمشدہ کردیا، جب بلوچ اپنے دھرتی سے بیدخل ہوگیا تب اس کا کردار اسی وقت جبری طور پر لاپتہ کردیا گیا۔ ایک ایسی نسل کے طور پر بلوچ کو اجتماعی طور پر تیار کیا گیا کہ جو بھیڑ بکریوں کی طرح لاٹھی سے ہانکے جاسکیں۔

سیاسی شعور کو روکنے جبر کی لاٹھی اور مصلحت پسندی کا گاجر بھی دکھایا گیا۔ پارلیمانی پارٹیوں نے بلوچ قوم میں شعور اجاگر کرنے سے زیادہ انہیں خوفزدہ کرنے میں کردار ادا کیا۔
تحریک نے بلوچ قوم کو ایک امید دی، اسے ایک بے مقصد ہجوم بننے کی بجائے ایک باشعور قوم بننے کی ترغیب دی، بلوچ جہدکاروں کی قربانیوں نے قبائلی خول کو توڑ دیا، جہدکاروں نے بت پرستی کی روایت توڑ کر عمل و کردار کو رہنما بنایا۔ بلوچ کے پاس اگر کچھ ہے تو وہ یہ تحریک ہے کیونکہ بغیر شعور کے بلوچ ایک ہجوم سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی اور ایک ہجوم اس دھرتی کے وارث ہونے کا حق کیسے رکھ سکتا ہے؟

تحریک کے بغیر ہم کچھ بھی نہیں اور تحریک کیساتھ ہم ایک باشعور قوم اور اس دھرتی کے حقیقی وارث ہیں کیونکہ تحریک نے مشکل سے مشکل وقت میں بھی اس دھرتی کا دفاع کیا۔ تحریک کے سچے سپاہی فدائی حملوں سے بھی پس و پیش نہیں ہوئے کیونکہ روز روز مرنے سے، وقفوں میں مرنے سے یا کسی بے مقصد موت مرنے سے بہتر ہے کہ ایک عظیم مقصد کے لیے جدوجہد کی جائے اور اگر اس تحریک کے لیے ہم قربان بھی ہوتے ہیں تو اور بہت سے فرزند تیار ہوجائینگے۔ یہ سلسلہ چلتا رہیگا کیونکہ نوآبادیاتی نظام کے خاتمے تک کوئی بھی سمجھوتا دیرپا نہیں ہوسکتا، مظلوم کو بہت جلد یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ اس کے لیے اس نظام میں جبر ہی جبر ہے۔ جب جبر ہے تو پھر کیوں نا اس جبر کا مقابلہ کرتے ہوئے اسے ختم کیا جائے اور یہ طویل المدتی ہمہ جہتی جد وجہد کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

آج بلوچ تحریک از سر نو صف بندیوں کے مراحل سے گذر رہی ہے جہاں تنظیم کاری کے باعث یہ مزید توانا ہوگی اور وہ دن دور نہیں جب بلوچ جہدکار ریاست کے نفسیاتی خوف کو مکمل توڑ کر اس پر خود حاوی ہونگے اور بلوچ جدوجہد بلوچ کی آزادی کا ضامن ہوگا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔