عبث تجربہ
تحریر: برزکوہی
دی بلوچستان پوسٹ
سندھ کے علاقے بدین کا قصہ ہے کہ کسی دور میں پاکستانی فوج کی جانب سے پتہ نہیں کس خدمت گذاری یا وفاداری میں کچھ لوگوں میں غیرآباد زمینیں تقسیم کی گئیں، برسوں بعد زمین کے ایک ٹکڑے کا مالک ایک شخص فوت ہوگیا تو اس کے بعد زمین اس کے بیٹے کے نام ہوا، لوگوں نے بیٹے کو کہا کہ بھائی ان غیرآباد زمینوں سے تمہارے والد کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا تو تمہیں کیا ملے گا لہٰذا یہ زمینیں بیچ کر کوئی کاروبار کرلو۔ بیٹے نے بات مان کر زمینیں بیچ دیں اور ان پیسوں سے 2 رکشے خرید لیئے، ایک کو ٹھیکے پر دیا، ایک کو خود چلانا شروع کیا، پھر خود رکشہ یونین کا صدر بنا۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ نقصان ہوا، ایک رکشہ پیچنا پڑگیا، کچھ وقت کے بعد دوسرا رکشہ بھی گیا۔ آخر کار صدر یونین سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا۔ آخر میں کسی دوسرے کے رکشے کو ٹھیکے پر چلاتا رہا، وہاں بھی نقصان اٹھانا پڑا۔ بالآخر ادھر ادھر سے کچھ پیسے ادھار و مدد مانگ کر ایک سبزی کی ریڑی لگا دی۔ کسی نے اسے دیکھ کر اظہار ہمدردی کرتے ہوئے بولا بھائی آپ اس مقام پر پہنچے، دیکھ کر مجھے بہت افسوس ہورہا ہے، تو اس نے فوراً جواب دیا، جی بلکل! نقصان تو بہت ہوا مگر ایک بڑا فائدہ بھی ہوا کہ مجھے کم از کم تجربہ ہوگیا۔
جب ہم متذکرہ مضحکہ خیز تجربے کے تناظر میں اپنے جدوجہد یا بلوچ سیاست کو سامنے رکھ کر غور کریں تو بہت سے رکشے والے تجربے ہمیں یہاں بھی دیکھنے کو ملیں گے۔ سیاست و سیاسی عمل اور جدوجہد میں ضرور سیکھنا، سمجھنا اور تجربہ حاصل کرنا ایک لازمی امر ہے، مگر صرف اور صرف رکشے والے کی طرح بے سود تجربہ حاصل کرنا؟ یعنی کھونے کے لیئے سب کچھ پانے کے لیے صرف تجربہ؟ کیا یہ خود غلط سودا یا غلط سوچ نہیں؟
جب تجربہ برائے تجربہ ہو، نہ کہ قومی سیاست، قومی جدوجہد اور قومی تحریک میں قومی کردار یا قومی ذمہ داری نبھانے کے اصول کی خاطر سیکھنے اور سمجھنے کا ایک پختہ عمل ہو، پھر میرے خیال میں تجربہ در تجربہ صرف وقت کا ضیاع اور کردار کا زوال ثابت ہوگا۔
قوم کے نام پر تجربہ، تحریک کے نام پر تجربہ اور قومی جنگ کے نام پر تجربہ؟ پھر یہ قوم یا تحریک نہیں صرف لیبارٹری اور تجربہ گاہ ہی ہوگا۔
ہم نے بارہا ذکر کیا ہے کہ بلوچ قوم آج ایک انتہائی سخت و کھٹن اورپر آزمائش دور سے گذر کر مثبت مواقع کے ساتھ ساتھ تاریخ ساز دور سے بھی گذررہا ہے، بہت کم ہی اقوام یا لوگوں کو ایسے سنہرے مواقع نصیب ہوتے ہیں۔ جنہیں یہ مواقع نصیب ہوتے ہیں، وہ اقوام، وہ لوگ ایسے تاریخ ساز ادوار یا مواقعوں سے بھرپور فائدہ اٹھاکر اپنا ایک اعلیٰ اور مثالی تاریخی کردار نبھاکر اپنے قوموں، اپنی سرزمین اور اپنی تاریخ کو چار چاند لگا دیتے ہیں۔
اب سب سے اہم اور بنیادی سوال یہ ہے آیا ہم بحثیت قوم اور بحثیت جہدکار واقعی اس سنہرے اور تاریخ ساز دور میں اسی مطابق اپنا قومی کردار و قومی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں، جو تاریخ ساز دور کے تقاضات و اصولوں کے مطابق ہوں؟ صرف اپنے دل و دماغ اور زاویہ نظرسے نہیں بلکہ حقائق اور تاریخ ساز تقاضات اور اصولوں کے مطابق پرکھنا، غور کرنا اور سمجھنا ہوگا وگرنہ اپنے ہی دل و دماغ اور زاویہ نظر میں ہر ایک اپنے اپنے محدود دنیا اور محدود سرکل میں ضرور مطمین ہوگا کہ میں قوم و وطن اور جدوجہد کا سب سے اہم اور بڑا کردار ہوں، مگر حقیقت اس کے برعکس ہوگا۔
یہ صرف میری ذاتی رائے یا ذہنی اختراع نہیں ہے بلکہ تحریکی اور تاریخی حقیقت ہے کہ جب آپ قومی و انقلابی جدوجہد یا قومی و انقلابی جنگ کے پرکھٹن راہ پر قدم رکھتے ہیں، پھر آپ کو مکمل اور آخری حد تک قومی جدوجہد اور قومی جنگ کے تقاضات کے مطابق جانا ہی ہوگا، نہیں تو آپ رکشے والے کی طرح لاحاصل تجربہ حاصل تو کرسکتے ہیں، مگر تحریک و تاریخ میں تاریخی و مثالی کردار سے محروم ہونگے، پھر آپ کا شمار تاریخ میں صرف ضائع جہدکاروں میں ہی شمار ہوگا۔
کیا عمل کے بجائے صرف تحریک و جنگ سے وابستگی یا پھر ڈگمگاتے قدموں و الجھن تذذب کا شکار ہوکر آزاد خیالی، سستی، کاہلی، لاپرواہی، غیر ذمہ داری، غیر سنجیدگی، عدم توجہ، عدم دلچسپی، خوف، خود غرضی کے ساتھ جنگ یا تحریک سے لٹکتے ہوئے مفلوج کردار سے تحریک سے مکمل عدم وابستگی بہتر نہیں ہے؟ کیونکہ ایسے فالج زدہ کرداروں کی بلاواسط یا بالاواسطہ قومی تحریک یا قومی جنگ پر انتہائی خطرناک اور منفی اثرات مرتب ہونگے اور تحریک تنظیم اور قومی جنگ کبھی بھی اور کسی بھی وقت ایسے چیزوں کا نہ متحمل ہوا ہے اور نہ ہی ہوگا بلکہ ان کے منفی اثرات باقی جہدکاروں پر بھی لامحالہ کسی بھی صورت پڑینگے اور آخر کار ایسے تنظیم و تحریک دشمن سے نہیں بلکہ اپنے ہی ہاتھوں زوال اور بربادی کا شکار ہوتے ہیں۔ دشمن کا کام مفت میں آسان ہوگا، تحریکی مطالعے سے ہمیں سینکڑوں ایسے سبق و تجربات ملتے ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔