شہید نواب اکبر بگٹی اور جہد مسلسل – دلجان بلوچ

1168

شہید نواب اکبر بگٹی اور جہد مسلسل

 تحریر  : دلجان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

چھبیس اگست 2006 کے وہ خوفناک لمحے جب پاکستان کا ایک جنرل بمعہ اپنی سینکڑوں سپاہیوں کے کوہلو کی حسین وادیوں پر ایک آفت بن کر ٹوٹ پڑا تھا۔ جہاں پر ایک ستر سالہ بوڑھا شخص، ہاتھ میں عصا تھامے اپنے قبیلے اور دیگر بلوچ نوجوانوں کے ہمراہ اپنے ہی سرزمین پر ایک پناہ گزین کی سی زندگی بسر کررہا تھا۔ انکا یہ کہنا تھا کہ ہم پر جنگ مسلط کی گئی ہے اور ہم اس سرزمین اور اسکے وسائل کے مالک ہیں، ہمیں یہ پورا اختیار حاصل ہے کہ اپنے دفاع کو اپنے محدود وسائلوں کے ذریعے یقینی بنائیں۔ اگر دشمن ہمارا خون بہا سکتا ہے تو بدلے میں چند قطرے خون کے انکے بھی بہائے جائینگے۔ جی ہاں یہ کلمات نواب اکبر خان بگٹی کے تھے۔

نواب اکبر خان بگٹی
ایک نہایت رعبدار اور قدآور شخصیت کے مالک تھے۔ وہ اپنے منفرد اندازِ گفتگو، نڈر فیصلوں اور اپنے مضبوط کمیٹمنٹ کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ نواب اکبر خان بگٹی اپنے دو ٹوک موقف کے سبب کئی مرتبہ پاکستانی جابر حکمرانوں کی طرف سے قید و بند کی صوبتیں جھیل چکے تھے۔ ڈاکٹر شازیہ کا ریپ کا واقعہ ہو یا کہ بلوچستان میں غیر مقامی لوگوں کی آبادکاری یا پھر بلوچستان میں پاکستانی فوجیوں کے مختلف ادوار میں کئے جانے والے خوفناک آپریشنز کے ردعمل میں ہمیشہ اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔ اکبر خان جمہوری سیاست کے حامی تھے اور انکی زندگی کو اگر پڑھا جائے تو وہ واضع طور پر آپ سب پر نمایاں ہوسکتاہے۔ مگر ایک بلوچ کو اسکے ہی سرزمین پر اسی کے گھر میں آکر کوئی جنرل آکر للکارے تو اس پر خاموش رہنا ایک بلوچ کہ لئے شائد ممکن نہیں۔ اور یہی وجہ تھی جب جنرل مشرف اپنی آئی ایس آئی، فوج اور ریاستی مشینری کو مکمل طور پر بروئے کار لاکر ایک قبیلے کے نواب اور اسکے ساتھیوں کو قتل کرنے میں مصروف عمل تھے، جسے مقامی اور عالمی میڈیا پر مکمل پزیرائی ملی تھی۔ تو ایسے میں نواب اکبر خان بگٹی نے ایک خونی آمر کے آگے سرینڈر کرنے کے بجائے اسکا مقابلہ کرنا اور اپنے دفاع کرنے کو فوقیت دی اور اپنی آخری سانسوں تک انکا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔

پاکستان اور اسکی جابر فوج اس غلط فہمی کا شکار تھے کی نواب اکبر بگٹی کو شھید کرکے وہ بلوچوں کے وسائل اور انکی سرزمین پر اپنا قبضہ باآسانی برقرار رکھینگے۔ لیکن شائد اس دور کے حکمران اس بات کو بھول چکے تھے یہ جدوجہد کو نواب اکبر خان سے پہلے آغا عبدالکریم اور نواب نوروز خان جیسے فرزند بلوچستان آغاز کرچکے تھے۔ اور نواب اکبر خان بگٹی کی قربانی بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ جیسے کہ آپ جانتے ہیں کہ نواب اکبر کی جدوجہد کے سبب بلوچستان کی تحریک آزادی میں ایک نئی روح سی پھونک دی گئی تھی۔ اور یہ جدوجہد فقط ڈیرہ بگٹی تک محدود نہیں تھی بلکہ یہ کراچی سے مکران، مکران سے بولان اور بلوچستان کے طول و عرض میں پھیل چکی تھی۔ جسکی سربراہی بلوچستان کے مختلف آزادی پسند رہنما بے حد خوش اصلوبی سے انجام دے رہے تھے۔ سیاسی محاز پر اس وقت کی قائم کردہ ڈاکٹر اللہ نزر بلوچ کی بلوچ طلبہ آرگنازیشن بی ایس او آزاد اور چئیرمین واجہ غلام محمد بلوچ کی سربراہی میں بلوچ نیشنل مومنٹ سرِفہرست دیکھی گئی اور شائد یہی وجہ تھی کے سب سے زیادہ ریاست کی جانب سے انہی کو نشانہ بنایا گیا۔ خیر بلوچستان میں آزادی کا جزبہ اور جدوجہد کا نہ رکنے والا سلسلہ آج اکبر خان بگٹی کی شہادت کے ٹھیک تیرہ سال بعد بھی بلوچستان کی آزادی کے متوالے بلوچ نواجوان، خواتین اور بچے آج بھی کسی قسم کی قربانی دینے سے دریغ نہیں کررہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کی اس جدوجہد کو پاکستانی جانبدار میڈیا کی جانب سے پزیرائی نہیں مل رہی ہے لیکن بلوچوں کی سربراہی میں چلنے والے میڈیا گروپس دن رات پاکستانی فوج کی جارحیت کو دنیا کی سامنے عیاں کرنے میں مصروف ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے شُہدا کی قربانیوں اور بلوچ جہدکاروں کی انتھک محنت کے سبب آج دنیا کے سامنے بلوچ قومی تحریک کو اہمیت حاصل ہوئی ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں