شعیب پھل جان: پختہ شعور اور باصلاحیت انسان – شئے دلجان بلوچ

756

شعیب پھل جان: پختہ شعور اور باصلاحیت انسان

تحریر: شئے دلجان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

شعیب پھل دوست، اس شخصیت کا نام ہے، جس نہ اس چھوٹی سی عمر میں وہ کرکے دکھایا، جو میری سوچ سے بہت آگے ہے۔ وطن کی عاشق نے یہ ثابت کردیا کہ سوچ کا عمر سے کوئی تعلق نہیں، واقعی شعیب جان تم نے جو کہا وہ کرکے دکھایا مجھے یاد ہے آج بھی جب تم میرے ساتھ چلتے پھرتے تھے، تم کہا کرتے تھے کہ میں انشااللہ قومی فوج BLA کے سپاہی بنونگا دشمن کا نیند حرام کرونگا، اس نے میری ماں بہنوں کی جینا ناممکن کر دیا ہے میں بزدل پنجابی کو کبھی نہیں معاف کرونگا۔ میں بہت زیادہ ہنسا تھا اور میں نے کہا تھا شعیب پھل دوست بولنا بہت آسان ہے عمل کرنا بہت مشکل ہے اور تم خود بھی میرے ساتھ ہنسے تھے، اپنے صفائی میں اور کچھ بھی نہیں کہا تم نے۔

عظیم دھرتی کے عظیم وارث یقیناً آج میں بہت شرمندہ ہوں، پھل دوست تمہارا عمل و سوچ کے سامنے، تم نے جو کہا وہ کر دکھایا۔ اس دن کے بعد کبھی بھی تم نے مجھ سے اس بات کا ذکر نہیں کیا اور نہ کبھی بڑی بڑی باتیں کیں، پھل میں تو اس بات کو مزاق سمجھ کر بھول گیا لیکن تم نہیں بھولے تھے، کیونکہ تم مذاق نہیں کررہے تھے۔ کیونکہ تم سر زمین کے عشق میں پھنسے ہوئے تھے کیونکہ تم کو غلامی کا درد کا احساس ہوا تھا۔ پھل تمہارا مقصد تب ہی سے تمہارے ساتھ تھا، آج تمہارے بارے میں لکھنے کو بہت دل کرتا ہے، مگر بہت مشکل سے لکھ پاتا ہوں، میں جانتا ہوں تمہارا عمل میری لفظوں کا محتاج نہیں، اس وقت سے لیکر تمہارے الوداع کہنے تک کا سفر بہت یاد آتا ہے، ایک ساتھ کھیل کود کرنا، مستی مذاق، لڑنا جھگڑنا سب کچھ، تمہاری وہ پیاری باتیں، گھر میں کسی شہر میں ہوتے ہی میرا نام لینا، آج بھی تمہاری آواز میرے کانوں میں گونجتا ہے، شعیب پھل دوست بہت زیادہ فخر ہے مجھے تم پر، تم نے ہم سب کو حوصلہ دیا ہے، ہمیں جذبہ دیا وطن سے کس حد تک محبت کرتےہیں وہ سکھایا ہے۔

میری مایوسی کو توڑدیا تم نہ، میرے اس کمزور دل کو مضبوط کردیا، اپنے عمل سے۔ پہلے بھی تم عظیم تھے جب بھی کوئی تمہیں ڈانٹتا تھا، تم مسکراتے کسی کی ناراضگی کو بھی مسکرا کر سہہ لیتے۔ تم نے کبھی بھی کسی کو ناراض نہیں کیا، تمہاری مخلصی ہی تمہاری عظیم ہونے کا ثبوت ہے۔

میں نے تم سے کہا تھا نا کہ میں تمہارے بغیر کیسے رہونگا، یقیناً تم نے جسمانی طور پر مجھے اکیلا کردیا لیکن تمھاری وہ عظیم سوچ آج بھی میرے دل٬ دماغ میں ناچتی ہے، آج تم میرے ساتھ ہو، تم زندہ ہو میری سوچ میں، میری باتوں میں، میری یادوں میں، تمہاری باتیں ہمیشہ میرے ذہن میں ہیں، تمہارا وہ مسکراتا چہرہ ہمیشہ میرے سامنے ہے۔ میں نے کبھی بھی تمہیں مایوس نہیں دیکھا، ایک بار پوچھا بھی تھا تم سے شعیب جان تم ان حالات میں مایوس نہیں ہوتے؟ تم نے مسکرا کر جواب دیا مایوسی کس چیز کا؟ ارے یہی ایک طرف سے دشمن نے عظیم دھرتی پر ظلم کی انتہا کر دیاہے اور دوسری طرف سے بلوچ قوم آپس کے اختلافات میں مصروف ہے۔ اف میرے پھل دوست نے کیا خوبصورت جواب دیا ” ارے نہیں بلکل بھی نہیں۔” پریشان نہیں ہونا، دنیا کے جنگوں کی تاریخ اٹھا کے دیکھو اس طرح کا مسائل درپیش ہوتے رہتے ہیں تب میں نہ کہا تھا “ارے تم تو بہت ہی پے پروا ہو۔” ہمارے دھرتی کے عظیم وارث شہید ہورہے ہیں، مائیں اپنے لخت جگروں کی لاش اٹھا اٹھا کے تھک گئے ہیں، دھرتی کے کونے کونے پر ہیلی کاپٹروں سے شیلنگ ہو رہے ہیں، بھائی، بہنیں اپنے پیاروں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کے خود غائب ہورہے ہیں بلوچ کے 2 سالہ بچوں سے لے کر بوڑھوں تک کو دشمن اٹھا کر اپنے زندانوں میں بند کر رہے ہیں۔

تب بھی تم نہ مسکرا کر کہا تھا ارے میری جان جنگ اسی کو تو کہتے ہیں، آج ہمیں مایوسی نہیں بلکہ بہترین حکمت عملی دیکھانا ہے تاکہ دشمن کو پتہ چلے کہ بلوچ ایک زندہ قوم ہے “اس میں بے پرواہی کی کیا بات ہے؟” تم بالکل بھی پے پرواہ نہیں تھے، پھل دوست آج یہ ساری باتیں یاد کرکے تمہارے غیر موجودگی میں مجھے تکلیف ضرور دیتے ہیں، جب بھی میں تمہارے مقصد، تمہارے عمل کے بارے میں سوچتا ہوں ، میں بہت فخر کرتا ہوں، میرا بہادر دوست میدان جنگ میں شہید ہوگیا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔