سیندک ملازمین سراپا احتجاج – گہرام اسلم بلوچ

135

سیندک ملازمین سراپا احتجاج

تحریر: گہرام اسلم بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

سیندک بلوچستان کے ایک ایسے ضلع میں واقع ہے، جس پر پاکستان ہمیشہ فخر کرتا ہے کہ ہم نے ۱۹۹۸ میں بلوچستان چاغی کے پہاڑوں میں ایٹمی دھماکہ کر کے دنیا کو باور کرایا کہ ہم بھی ایٹمی طاقت ہیں۔ چاغی اور گردونواح کی آبادی ابھی بھی اس کے تابکاری سے مختلف بیماریوں اور پیدائشی معذوری میں مبتلا ہوتے ہیں۔ “واضح رہے سیندک میٹلز لمیٹڈ نے ملازمین کو ٹریننگ دینے کے بعد ۱۹۹۳ میں باقاعدہ تانبا اور سونا نکالنے کے عمل شروع کیا” گذشتہ دنوں سماجی رابطوں کے ویب سائٹس فیسبک اور ٹوئیٹر پہ چلنے والی خبروں کے مطابق سیندک پروجیکٹ کے ملازمین اپنےجائز مطالبات کے لیئے سیندک میٹلز لمیٹڈ کے انتظامیہ کے خلاف سراپا احتجاج ہیں، جن میں انکے مطالبات میں شامل ہیں کہ انکا کوئی سروس اسٹریکچر نہیں ہے۔

پہلے جو ملازم بھرتی ہوتے تھے، انکی ملازمت وفاقی ملازمت کی طرح تھی، انکی تنخواہ، اسکیل کی بنیاد پر دی جاتی تھی اور دیگر مراعات بشمول الاونسز جمعے کی چھٹی بیماری یا دیگر ہنگامی صورت میں اور سفری اخراجات، عیدی، ہاوس رینٹ وغیرہ۔

اب مختلف محرومیوں و زیادتیوں سے سیندک ملازمین برسرپیکار ہیں، انہیں ہر بار طرح طرح کی ہیلے بہانے اور جھوٹی تسلیوں سے انکے مسائل کو سردخانے میں رکھا جا رہا ہے، یہ سیندک پروجیکٹ کے انتظامیہ کی پالیسی ہے کہ جب بھی ملازمین یا مزدور اپنے مطالبات کے حق میں ملکی آئین و قانون کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے احتجاج کا راستہ اپناتے ہیں تو انکو خاموش کرنے کیلئے طرح طرح کے حربے استعمال کرتے ہیں اور ایسا تاثر دیا جاتا ہے کہ اگر آپ خاموش نہیں ہوں گے تو ہم آپکو نکال کر نئے ملازمین کی تقرریاں کریں گے اور ایسا بھی ہوا ہے کہ جنکو ملازمت سے بغیر کوئی پنشن یا حقداری کے خالی ہاتھ گھر بھیجاگیا ہے اور انکی جگہ پر دیگر بااثر لوگوں کے بندوں کی تقرری عمل میں لائی جاتی ہے

۔ اسوقت سیندک میٹلز لیمٹڈ کے منیجنگ ڈائیریکٹر، ایم ، ڈی، موجودہ سینیٹ چیئرمین پاکستان کے بھائی رازق سنجرانی ہیں سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے خبروں سے متاثرین کی موقف سامنے آتی ہے، جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ملازمین پر جتنی ناانصافیاں موجودہ ایم۔ ڈی کے دور میں ہورہا ہے شاید اسکی کوئی اور مثال ملے۔

بلوچستان کے ایک سکول آف تھاٹھ کے لوگوں کا وفاق سے گلہ و شکوہ ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ وفاق بلوچستان کے ساحل وسائل پر بلوچوں کا کوئی حق نہیں ہے اور بلوچستان کو ہر لحاظ سے پسماندہ رکھا جا رہا ہے، اگر سیندک پروجیکٹ جیسے بڑے پروجیکٹ میں ملازمین یا مقامی لوگوں کیساتھ اسطرح کے استحصالی پالیسیوں کو جاری رکھا گیا تو انتہائی قابل افسوس ہے اور بلوچستان کے عوام کا وفاق کے ساتھ ناراضگی اور تحفظات حق بجانب ہیں۔

اسطرح کے پروجیکٹ میں مزدوروں کے تحفظ کے حوالے سے کوئی لیبر قانون نہ ہونا تو سوالیہ نشان ہے۔ اس مہنگائی کے دور میں ملازمین کیساتھ اسطرح جان بوجھ کر حالات پیدا کرنا محض انکے ذہن کو احتجاج اور سڑکوں پر متوجہ کرنا انکی ہر مجبوری سے ناجائز فائدہ اٹھانا اور اپنے عزائم کو پورا کرنا یقیناً بلوچستان اور مقامی و دیگر تمام ملازمین کیساتھ بہت بڑی زیادتی ہوگی انکے تدارک کےلیئے حکومت ترجیحی بنیادوں پر اقدامات اُٹھائے اور باقاعدہ قانون سازی کرے تاکہ سالوں بھر ملازمت کرکے کوئی سروس اٹیکچر کے بغیر خالی ہاتھ گھر لوٹ جائیں تو انکے بچوں اور فیملی کا کیا ہوگا؟ ایک مزدور دن رات مزدوری کر کے بڑی مشکل سے دو وقت کی روٹی کما سکتا ہے نا وہ اپنے بچوں کو تعلیم دلا سکتا ہے اور نا کوئی بیماری سے نمٹنے کے لیے معاشی طور پر اس پوزیشن پر ہوگا کہ اپنے بچوں کا علاج معالجہ کراسکے۔ مزدور کلاس کیساتھ سیندک پروجیکٹ کے انتظامیہ کا اسطرح کا رویہ اس نظام کے لیئے ایک بڑا سوال اور چیلنج ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔