سمندری مارچِ آزادی اور بلوچ کی ترددخیز تقدیر – الماس بلوچ

374

سمندری مارچِ آزادی اور بلوچ کی ترددخیز تقدیر

تحریر: الماس بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

سائیکالوجیکل جنگ بھی بہت مشکل, دشوار اور عجیب ہوتا چلا جارہا ہے۔ ویسے اگر دیکھا جائے تو سائیکالوجیکل جنگوں warfare کی تاریخ نیا اور جدید نہیں ہے بلکہ یہ اتنی پرانی ہے جتنی کہ جنگ کی اپنی پُرانی تاریخ اور شروعات۔
اگر ہم psychological warfare کا معمولی سی بھی جائزہ لیں تو کچھ اس طرح کے مثالیں ملتے ہیں۔

525 بی سی کے وقت جنگِ پِلویسیم war of Peluseum کے دوران فارسی فورسPersian Force نے بلیوں Cats کو یرغمال اور مغوی بنا کر اپنے دشمن یعنی کہ مِصریوں Egyptians سے سائیکالوجیکل فائدہ اٹھا کر انہیں شکست دینا چاہتے تھے۔ کیونکہ مِصریوں کے ہاں انکے مذہبی رسومات اور عقیدتی اصولوں کے مطابق بلیوں کو نقصان پہنچانا یا مارنا منع اور انکے مذہب کے خلاف تھا۔ لہٰذا انہیں بلیوں کا فکر سر پر چڑھ جاتا اور حملے کیلئے پسپائی کا شکار عموماً انکا مقدار بن جاتا تھا، جو ان وقتوں میں بہت ہی عمدہ جنگی حکمتِ عملی کے دائرے میں نفسیاتی جنگ سمجھا جاتاتھا۔ اس کے علاوہ 13th صدی میں منگولMongolians بادشاہ چنگیز خان دشمنوں کو اپنے فوج کی حقیقی تعداد زیادہ دیکھانے کیلئے ہر فوجی اہلکار کو تین تین جلے ہوئے مشعل راتوں کی تاریکیوں میں ہاتھوں میں تھما دیتے تھے تاکہ دشمن دور سے دیکھتے ہی خود با خود پسپا ہوجائے اور تعداد کو زیادہ سمجھ کر دیر تک ڈٹ نہ سکے۔

لیکن اب جنگیں پیدل، گھوڑوں، تلواروں اور توپوں کے مدد سے لڑی نہیں جاتی ہیں اس لیے تو اب سائیکالوجیکل warfares یعنی کہ نفسیاتی جنگیں بھی تبدیلی کے مراحل سے ہوتے ہوئے مزید پیچیدہ ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ ماضی کی جنگی حکمتِ عملی کے ساتھ ساتھ جنگ لڑنے کا طرزِعمل بھی تبدیل ہوچکا ہے، اب سائیکالوجیکل جنگیں تربیتی صورت میں اتنے لیول تک بڑھ گئے ہیں کہ اب دشمن کے دھڑوں اور ٹولیوں میں رہتے ہوئے نفسیاتی طریقہ کار کو زیر استعمال لاکر دشمن ہی کے صف بندیوں سے بغاوتِ ترک جیسی مثالیں وجود میں آسکتے ہیں۔ کیسے اور کن وجوہات کے بناء پر ترک صدر رجب طیب اُردوگان کے خلاف انکے فوج کے سربراہ ہی بغاوت پر اتر آیا اور کان تک جُو نہ رینگتے ہوئے حکومتی تختہ الٹاتے رہ گیا۔ دائیں بازو کے موقف رکھنے والے گُروہ بیرون ملک بیٹھتے ہوئے اپنے نظریئے اور فلسفے کو اتنے اونچائی تک توانائی دیتا رہا جو ترکی کے ریاستی حساس ایجنسیاں سمیت تمام ملکی سیکورٹی فورسز کیلئے تاریخ کی سب سے بڑی ناکامی اور غیر فعالیت کا سبب بن گیا۔

اسے کہتے ہیں سائیکالوجیکل وائیٹ پروپگنڈہ جو بہت ہی حساس اور پیچیدہ اصولوں پر مبنی معلومات اور رائے پر کی جاتی ہے جس کیلئے انتہائی پر امید اور قابلِ اعتماد انفرادی قوتوں کے ضرورت کے ساتھ، ایک بہت ہی عملی ترتیب کے سہارے اداروں میں Infiltration کے ذریعے ایک طویل دورانیہ تک سرانجام دینا پڑتا ہے جسے کہتے ہیں Institutionalized Filtration جو معمولی سی بھی لاپرواہی پر مکمل پلان اور پروگرام کو چوپٹ کرسکتا ہے۔

مگر اس بات سے قطعاً انکاری ہونا بھی Paganism یعنی کہ کفر کے زمرے میں آتاہے۔ کہ وقت کے ساتھ ساتھ جنگیں بھی تغیرات کے شکار ہو کے غلام قوموں کی محکومیت، مفلسی اور غلامی کے زنجیروں میں اضافہ کرکے کوئی کسر نہیں چھوڑتے ہیں۔ کھبی کبھار جب جدید دنیاوی جنگی خدوخال یا انکے ساکھ کا سنجیدگی سے مطالعہ اور تجربہ ہوجاتی ہے تو انسانی دماغ کے نرو Nerve اپنے اشتراکی سرگرمیوں اور فعال کو ترک کرتے ہوئے منفی فِیڈبیک Negative Feedback دیتے ہیں تو مزید سوچ و بچار سے انسان ابتر صورتحال اختیار کرکے چوکنا رہ جاتا ہے۔

اس جدید دور میں جتنی بھی جنگیں جو کسی بھی قوم نے اپنی بقاء، زمینی حقائق کی حفاظت، زمین کی مٹی سے محبت، زبان ، قومی اثاثوں، کلچرل اور تہذیب کی بچاو جیسے تحریکوں سے وابستہ رکھتے ہوئے اب تک تسلسل کے ساتھ جہدِ مسلسل کے ساتھ لڑیں ہیں یا انکے بقایاجات اب بھی موجود ہیں انہیں اس لیے آفرینی داد وصول کرنے کا حق دار سمجھتے ہیں کیونکہ جو سیاست دنیا بھر میں ہو رہی وہ ہے بذاتِ خود ہنسنے کا نام ہوتا ہے۔ ان لوگوں پر جو اسے اپنا مذہب اور تکمیلِ ایمان سمجھ کر پوری عقیدت کے ساتھ زندگی کا حصہ بناتے ہیں مگر اجتماعی خدوحال میں تسلی بخش کہلوانے کا تھوڑا سا بھی حقدار نہیں ہوتے۔ اور پھر ایسے سیاست کے بل بوتے قلم اور اسلحہ کی زبان استعمال کرکے غلامانہ زندگی سے چھٹکارہ حاصل کرنے کیلئے تگ و دو کرنا انتہائی مشکل اور گھٹن ہوتا ہے۔ بلوچوں کی تقدیر اور نفسیاتی پسپائی کا داستان بھی اسی طرح سے بہت لمبی ہے اور اثر مندانہ بھی ہے مگر افسوس ہوتا ہے اس بات پر کہ بلوچ کے ہاں لکھنے اور لکھوانے کا رواج و رسم میں فرق، جانچنے کا عمل انتہائی سست رفتاری سے جاری ہے تو لکھنے والے اس موضوع پر یا تو کم ملتے ہیں یا پھر ملتے ہی نہیں ہیں۔

بہرحال نفسیاتی جنگ سے جڑے اس ٹائٹل میں اگے چل کر میں اسے سرسری نگاہ کے تحت بیان کرنا چاہونگا۔

میں کچھ ہی دن پہلے کچھ ممالک کے بیرونی پالیسیوں کے بارے میں پڑھ رہا تھا اور اسی کڑی میں مجھے جاپان، برطانوی سمیت کئی ممالک کے دوسری جنگِ عظیم کے بعد کا بیرونی پالیسیاں پڑھنے کا موقع ملا، جسے پڑھ کر میں حیران رہ گیا کہ کیسے کیسے رنگ بدلتی ہے دنیا وقت گذرنے کے ساتھ۔ 1950کے وقت اور اس سے کچھ ہی برس پہلے تیار کیئے گئے چند ممالک کی بیرونی پالیسیوں میں جنگوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی ہے اور مزید جنگیں روکنے، اپنی عوام کی زندگی کی حفاظت، انکے زمین، جائیدادیں اور باقی تمام ضرورتوں کو پورا کرنے کے ساتھ ہمسایہ ممالک سمیت باقی ملکوں کے ساتھ اشتراکی عمل کو پروان چڑھانا شامل ہے۔ یعنی کہ بزورِ طاقت اور شمشیر کسی بھی قوم کو محکوم بنانا، اس کے Demographic تبدیلی، مذہبی اقدار پر حملے، کلچرل اور تہذیب پر ہونے والے سازشوں کا ازالہ کرکے نہ ہی خود انہیں عمل میں لاینگے اور نہ ہی کسی اور ممالک کو اجازت دینگے۔

وِیل روگرز Will Rogers نے بہت ہی متحمل انداز میں کہا تھا، اگر کبھی بھی آپ نے سچائی کو سیاست میں داخل کیا تو آپ سیاست نہیں کر رہے ہیں. ویسا ہی کچھ ہے، برطانیہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد عہد کرتا ہیکہ وہ کسی بھی قوم کے ساتھ ناجائز سلوک کو برداشت نہیں کریگا اور ہر ایک ملک کی قومی پہچان کے احترام میں ان کے ساتھ ہونے والے ناجائز برتاؤ کا قابض شدہ ملک سے بین الاقوامی قانون کے تحت حساب لینے کا زور دیگا مگر برطانیہ نے دوسری جنگِ عظیم میں برُی طرح شکست کھانے کے بعد برصغیرِ ہند اور اس سے محلقہ قومیتی اور اقلیتی اقتدار کو روند کر disputed خطوں میں بانٹ کر ایک طویل جنگی ماحول کا پہلے سے عندیہ دیکر چلا گیا۔

رہا کچھ نہیں، نہ ہی سیاست، نہ ہی مذہب، نہ ہی مذہبی ہم آھنگی harmony، نہ ہی اشتراکیتی دوستی اور تہذیب و تمدن کا احترام اور نہ ہی اقلیتی تمیز۔

کیا برصغیر میں اتنا سب کچھ بنا کسی نفسیاتی جنگ اور حکمتِ عملی کے تحت رونما ہوا؟ بلکل بھی نہیں۔ جب اسلامی تحریکِ خلافت 1911-20 کو شروع ہوا تو پہلی دفعہ مسلمان اور ہندو قوم پرست لیڈران ایک آواز ہوکے خلافتِ عثمانیہ کو بچانے کا سوال برطانیہ کے پاس لے گئے اور برطانیہ نے دیکھتے ہی سوچ لیا تھا کہ کسی گھٹن وقت آنے سے قبل بھی ان کا اختلاف نقصان دہ ہو سکتا ہے اور بعد میں بھی۔ لہٰذا مستقبل میں برصغیر کا مشترک و اتفاق ہونا عملی میدان میں بہت دشواریاں ابھار سکتا ہے۔ تو نفسیاتی حوالے سے ھندوستان کے ساتھ کچھ ایسا کھیل کھیلا گیا کہ ہندو لیڈران نے تحریکِ خلافت کے خلافتِ عثمانیہ کو برقرار رکھنے کی demand پورا ہونے سے قبل اپنا الگ مزاحمتی پروگرام گاندھی جی کی سرپرستی میں شروع کیا۔ جس کی وجہ تحریکِ خلافت کمزور پڑ گیا اور بعد میں برطانوی استحصالی قوت اور مشینری نے اس خطے کو کئی سال تک جنگ زدہ بنانے کیلئے نفسیاتی حوالے سے متصاد جھگڑوں کی شکنجے میں رکھنا موزوں سمجھا اور اسی نفسیاتی warfare کے مطابق اس خطے کو بانٹ کر کئی اقوام کے زمین کو متنازع بنا کر دوسروں کے زبان، کلچرل، تہذیب اور تمدن کے ساتھ ضم کیا گیا جس میں بلوچستان کا آزاد اور خودمختار زمین بہت اہمیت کے حامل سمجھا جاتا تھا، بھی شامل ہے۔

ایسٹ انڈیا کمپنی کا برصیغر سے واپس نکل جانا، پاکستان اور انڈیا سے قبل11اگست1947 کو بلوچستان کو بطور خود مختار ریاستِ کلات واپس باقاعدہ اعلان کرنا، سب ایک سوچے سمجھے نفسیاتی عمل کے تحت پری پلانڈ پولیٹیکل ایجنڈہ تھا، جسے برطانیہ نے انتہائی ہنرمندی سے سرانجام دیا تھا۔ جس کی نقشِ قدم پر چل کر قائدِاعظم نے سب سے پہلے نفسیاتی warfares کی حکمتِ عملی کو استعمال کرکے ریاست کلات کے ساتھ جڑے ریاستوں کو معاہدے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ جیسے کلات اسٹیٹ کے بالائی اور ذیلی دونوں پارلیمان نے نا مانتے ہوئے رد کیا تھا، جس کی وجہ سے بعد میں لشکر کشی کرکے پاکستان نے شمشیربازی سے بلوچستان کا الحاق کیا تھا، جو بیان القوامی قانون کے مطابق لاقانونیت کے زمرے میں آتا ہے۔ تب سے آج تک بلوچوں کے ساتھ نفسیاتی طور پر برتاؤ کیا جارہا ہے جبکہ دوسری طرف بلوچ جہد سے منسلک پولیٹیکل پارٹیاں، تنظیمیں اور گروہ بجائے دشمن کی نفسیاتی طرزِعمل کو مناسب طرح سے سمجھ سکیں اپنے ہی ہیومن ریسورسز کی حفاظت کرنے میں نا کام رہ گیا۔

مثال میں بی۔ایس۔او آزاد کو اگر لیں، تو اس نفسیاتی جنگ کے دوران ناتجربہ کاری اور غیر پختہ سیاست کرنے، مسلح تنظیموں سے ضرورت سے زیادہ وابستگی پر بی ایس او بلوچ طلباء و طالبات طبقات میں سائیکالوجیکل warfare میں مات کھاکر خطرناک حد تک ان سے جدا ہوچکا ہے، تعلیمی ادروں سے لیکر عام طلبہ کمیونیٹی تک طلبہ پولیٹیکس کا عمل دخل بنجر سے بنجر تر ہوتا جارہا ہے، جو بلوچ سیاست کیلئے بہت ہی جان لیوا اور تشویشناک سمجھا جاتاہے۔ ریاستی مشینری کیلئے جہدِ آزادی سے منسلک نوجوان بہت ہی خطرہ اور درد سر سمجھے جاتے تھے کیونکہ نوجوان طبقہ تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ہی سرداری نظام سے مکمل طورپر آشنا اور باخبر تھے، مناسب طریقہ کار کو استعمال میں لاکر اسٹوڈنٹس تنظیموں کو ایک لمبی عمر تک عملی صورت میں زندہ رکھ سکتے تھے، جس کی عدم موجودگی اور غیر سنجیدگی نے اسٹوڈنٹس پولیٹیکس کو بلوچستان کے کونے کونے میں حقیقی قوم پرستانہ جہد سے چھین کر نام نہاد پارلیمانی پارٹیوں سے وابستہ تنظیموں کے سپرد کیا۔

لہٰذا نفسیاتی طرزِعمل کو استعمال کرکے ریاست نے بی ایس او آزاد سمیت باقی طلبہ تنظیموں کو کھلی چھوٹ دی تھی، جن کو بہت ہی کم وقت میں قابو کرنے کیلئے ریاست کو آسانی ہوئی، جسکی وجہ سے آج پورے بلوچستان میں کوئی بھی قومی جہد سے منسلک قوم پرست طلبہ تنظیم وجود نہیں رکھتا۔ جو عملی سطح پر نوجوانوں کو ترتیب دے کر کیڈر سازی میں پیدا وارنہ کام سرانجام دیں۔ اور آہستہ آہستہ بہت ہی شائستگی سے warfare کے Tactics کو استمعال کرکے جوانوں، مزدوروں، ناخداوں، ٹیچرز، کسان اور روزمرہ زندگی سے وابستہ مختلف لوگوں کو اپنی طرف راغب کررہا ہے۔

14اگست پاکستان سمیت بلوچستان میں پچھلے کئی برسوں کی طرح ایک طویل طے شدہ اعلیٰ نفسیاتی طرز سے منایا جا رہا ہے۔ بلوچستان کے ہر علاقے میں ان کے نفسیات اور علاقائی فطرت کے مطابق وہاں کے شہروں کے ساتھ اخلاقیات دیکھا کر بھرپور انداز میں مصروفِ عمل ہیں۔ گوادر پاکستان کیلئے انتہائی اہمیت کے حامل ٹریڈ، ملٹری اور نیول زون ہے۔ جہاں پاکستان کسی بھی صورت اپنا رٹ قائم کرنا چاہتا ہے اسلیئے گوادر ایک مکمل Garrison نما فوجی خطے میں تبدیل ہوچکا ہے۔ جس کی لوکل آبادی اور انکے زمینوں کو کسی حد تک Settlers خرید چکے ہیں جہاں ایک لیول تک Demographic تبدیلیاں آسکتے ہیں۔ اتنے بڑے سمندر کے مالک ناخدا لطف اندوز زندگی کے کشمکش میں پدی اور دیمی زر سے وابستہ شکار کرنے کے ریاستی اعلان شدہ نقشے سے نالاں ہوتے ہوئے شدید احتجاج کرچکے ہیں۔ مگر اسی سمندر جس میں شکار کے زونز اور حدود قائم ہوچکے ہیں اور دیمی زر جہاں لوکل آبادی کا ذریعہ معاش ہے، مچھلی شکار کرنے کیلئے بند کیا جارہا ہے۔

وہاں 14اگست کو کشمیر کے ساتھ یکجہتی کیلئے ایک سمندری مارچِ آزادی منعقد ہوتا ہے۔ جس کیلئے انہی کشتی مالکان جنکا زریعہ معاش کو تشویشناک حد تک خطرات میں ڈال دیا گیا ہے کو پٹرول، پاکستان اور کشمیر کا جھنڈا تھما کر سمندر میں مارچ کیلئے اتارکر انعامات سے نوازا جاتا ہے۔ کسی نظام سے تنگ اجتماعی گروہ کو بلوچ جہد اپنے حق میں استعمال کرنے میں ناکام ہوچکاہے جسکی سب سے بڑی وجہ عوام سے دوری ہے۔

اسطرح آزادی پسند پارٹیوں اور تنظیموں کی عدم موجودگی سے پاکستان اپنی نفسیاتی جنگی حکمتِ عملی میں بھرپور لیول تک کامیاب ہوتا ہوا بلوچ عوام کی تقدیر کے ترددخیز انداز فطرت کو للکار رہا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔