ملک کی حفاظت پر مامور فورسز ہمارے لئے قابل احترام ہے لیکن ہمیں ایک ادارے کی جا نب سے دوسرے ادارے کے دائرہ کا ر میں مداخلت قابل قبول نہیں، عدلیہ کی آزادی اور ملکی استحکام پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرینگے۔
ملک بھرکے با ر کو نسلز اور ایسو سی ایشنز کے رہنماؤں نے سانحہ8 اگست 2016ء کو سول ہسپتال کوئٹہ میں شہید ہو نے والے وکلاء، میڈیا نمائندوں اور سویلینزکو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ کریم آف نیشن کو اس لئے نشانہ بنایا گیا کہ وہ حقدار کو بے لاگ انصاف کی فراہمی کیلئے کوشاں تھے، ہم شہداء کی انصاف کی بالادستی کیلئے دیانت، شرافت اورامانت والے پر خار راستے پر گامزن رہتے ہوئے آئین کی بالادستی، قانون کی حکمرانی کیلئے جدوجہد جاری رکھے گے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس کے کے آغا کے خلاف دائر ریفرنسز خالصتاََ بدنیتی پر مبنی ہیں اس لئے انہیں واپس لیا جائے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے دائر درخواست کی سماعت سپریم کورٹ کے فل بینچ کے ذریعے کرائی جائے لیکن فل بنچ میں سپریم جوڈیشل کونسل کا حصہ تین ججز کو شامل نہ کیا جا ئے۔ ان خیالات کااظہار پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین امجد شاہ ایڈووکیٹ، حا مد خان ایڈووکیٹ، محمد یاسین آزاد ایڈووکیٹ، لالا لطیف آفریدی ایڈووکیٹ، وائس چیئرمین بلوچستان بار کونسل عطاء اللہ لانگو، سینیٹر ڈاکٹرجہانزیب جمالدینی، اصغرخان اچکزئی، بلوچستان ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر سید باسط شاہ ایڈووکیٹ، خیبرپشتونخوا بار کونسل کے سعید خان ایڈووکیٹ، پنجاب بار کے شاہ نواز اسماعیل گجر، آزاد جموں کشمیر کے شیر زمان ایڈووکیٹ، اسلام آباد بار کونسل کے ہارون رشید، کراچی بار کے نعیم قریشی ایڈووکیٹ، آزاد جموں کشمیر کے چوہدری شوکت عزیز، سندھ بار کے عبدالرزاق مہر ایڈووکیٹ، ملتان بار کے ملک حیدر عثمان، ڈاکٹر لعل محمد کاکڑ، کوئٹہ بار ایسوسی ایشن کے صدر محمد آصف ریکی ودیگر نے کوئٹہ میں منعقدہ آل پاکستان لائرز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
مقررین کا کہنا تھا کہ کریم آف نیشن کو 8 اگست2016ء کو سول ہسپتال کوئٹہ میں اس لئے نشانہ بنایاگیا کہ وہ حق دار کو بے لاگ انصاف کی فراہمی کیلئے کوشاں تھے، ہم 8 اگست 2016ء کو جانوں کے نذرانے پیش کرنے والے وکلاء اور دیگر کو سرخ سلام پیش کرتے ہوئے آج کے دن یہ عہد کرتے ہیں کہ ان کے نامکمل مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کیاجائے گا۔
انہوں نے کہا کہ آئین اور قانون کو لاحق خطرات سے بھی ملک بھر کے وکلاء آگاہ ہیں، ہم حلف کے تقاضوں پر پورا اترنے کی کوشش کرنے والے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ و دیگر کے خلاف دائر ریفرنسز اور اس کے پیچھے کار فرما مقاصد سے بھی آگاہ ہیں اس وقت ایک طرف بھارت نے پاکستان کی شہ رگ کشمیر پر ہاتھ رکھ دیا ہے تو دوسری طرف ملک کے اندر ایک دوسرے کو فتح کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں جس کے انتہائی بھیانک نتائج برآمد ہونگے۔
انہوں نے کہا کہ افسوسناک امر یہ ہے کہ ایک طرف سانحہ 8 اگست سے متعلق تشکیل دی جانے والی جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ پر کوئی عملدرآمد نظر نہیں آرہا دوسری جانب رپورٹ مرتب کرنے والے جج قاضی فائز عیسیٰ کو ٹارگٹ کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سانحہ 8 اگست میں شہید ہونے والے وکلاء اور سویلین کے خاندانوں کو کوئی انصاف نہیں ملا۔
انہوں نے کہا کہ یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ وکلاء میں اختلافات ہیں جو صحیح نہیں آج کے اس پروگرام میں ملک بھر سے آئے ہوئے وکلاء نمائندے موجود ہیں ہم عدلیہ کی آزادی اور ملکی استحکام پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرینگے ایسے حالات میں جب ملک میں قومی سیاست کا فقدان نظر آرہا ہے، وکلاء کا کردار زنجیرکی سی ہے عدلیہ کی آزادی کا مقصد بعض افراد سے ہماری رغبت نہیں قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس بدنیتی کے سوا کچھ نہیں ان کے خلاف کرپشن کے کسی قسم کے ثبوت موجود نہیں اس سلسلے میں وکلاء بھرپور انداز میں کھڑے ہونگے کیونکہ وکلاء ہمیشہ سے حق اور انصاف کے امین رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے ملکی آئین میں متعین بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کی بات کرنے والوں کو مختلف القابات سے نوازا جاتا ہے حالانکہ دین اسلام بھی ہمیں بنیادی حقوق کی حفاظت کا درس دیتاہے، سانحہ 8 اگست کو شہید ہونے والے وکلاء حیات جاویداں پا گئے ہیں ان کے مشن سے کسی صورت بھی منحرف نہیں ہونگے۔
انہوں نے کہا کہ ملک کی حفاظت پر مامور فورسز ہمارے لئے قابل احترام ہے لیکن ہمیں ایک ادارے کی جانب سے دوسرے ادارے کے دائرہ کار میں مداخلت قابل قبول نہیں۔
انہوں نے کہا کہ بتایا جائے کہ 72 سالہ ملکی تاریخ میں ملک میں کتنی جمہوریت رہی اور لوگوں کو بھوک وافلاس اور بیماریوں سے چھٹکارا ملا انگریز کے خلاف جدوجہد کرنے والے پشتونوں، بلوچوں اور دیگر اقوام کے سیاسی اکابرین پر غداری کے الزامات لگائے گئے بلکہ انہیں پابند سلاسل بھی رکھا گیا، وکلاء قوم کو جوڑنے والی قوت ہے اس سلسلے میں ہم بھرپور کردار ادا کرینگے۔
انہوں نے کہا کہ اداروں کے صحیح سمت میں کام نہ کرنے کی وجہ سے ملک میں آمرانہ ادوار ہیں جسے عدلیہ بھی وقتاً فوقتاً قانونی تحفظ فراہم کرتا چلا آیا ہے جو قابل افسوس ہے، اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کا ایک طرح سے اداروں کی تباہی میں کردار رہا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ پارلیمنٹ اور عدلیہ کو سب سے زیادہ بااختیار اور آزاد ہونا چاہیے، چیئرمین سینٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں 64 سینیٹرز نے کھڑے ہو کر عدم اعتماد کی قرار داد منظور کرائی لیکن آدھے گھنٹے کے اندر 14 سینیٹرز کا ضمیر جاگ گیا، ہم جانتے ہیں کہ ضمیر جگانے والے کون ہیں۔
مقررین نے نیب سے سوال کیا کہ نیب چیئرمین بتائیں کہ نیب کے ادارے کا کام صرف اپوزیشن جماعتوں کے خلاف کارروائی ہے؟ وفاقی وزیر قانون کا کہنا ہے کہ حاصل بزنجو نے ایک ادارے کے سربراہ کا نام لے کر غداری کی ہے امریکہ میں آئی ایس آئی کی جانب سے سی آئی اے کو اسامہ بن لادن کی معلومات دینے کا موجودہ وزیراعظم کا بیان کیا ہے؟ کیا یہ بیان غداری کے زمرے میں نہیں آتا؟ ہم اس ملک میں سویلین بالادستی اور حکمرانی چاہتے ہیں اسٹیبلشمنٹ کی نہیں۔ پارلیمنٹ، عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ نے خود کو تباہ کرنے میں کردار ادا کیا ہے۔ ملک کی قیادت اور عوام کو ون پوائنٹ ایجنڈے پر کھڑا ہونا ہوگا وہ یہ ہے کہ کسی بھی ادارے کے دوسرے اداروں کے داہرہ کا ر میں غیر آئینی مداخلت کو قبول نہیں کیا جائے گا۔