ہم سمجھتے ہیں کہ چند ایک شخصیات کی واپس پاکستانی فریم ورک میں سیاست یا قومی موقف سے انحراف سے بلوچ قومی تحریک کو قطعاََ نقصان نہیں پہنچتا ہے بلکہ ان کی سیاسی حیثیت ختم ہوجائے گا – خلیل بلوچ
بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین خلیل بلوچ نے نیشنل پارٹی کے سربراہ حاصل خان بزنجو کے براہمدغ خان بگٹی سے کامیاب مذاکرات بارے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان بار بار حاصل خان بزنجو، ڈاکٹر مالک اور جنرل قادر جیسے مہروں کے ذریعے بیانات دلواکر اس تاثر کو تقویت پہنچانے کی کوشش کرتا ہے کہ بلوچستان پاکستان کا اندرونی مسئلہ ہے اور اسے اندرون خانہ مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے گا اور بار بار اپنے مذاکراتی عمل اور اس میں کامیابیوں کا تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ تحریک میں شامل چند لوگوں سے مذاکرات کے ذریعے مسئلے کو حل کرنے کے قریب پہنچ چکے تھے۔
چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں حاصل خان پاکستان کا مہرہ اور بلوچ قومی آزادی کا بدترین دشمن ہے لیکن بلوچ قومی تحریک میں شامل شخصیات کے حوالے سے بار بار مذاکرات کا ذکر اور کامیابی کے قریب ہونے کے بیانات کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے کیونکہ موصوف کے بلوچ قوم کے خلاف غداری اور پاکستان اور پاکستانی فوج کے لئے خدمات ڈھکے چھپے نہیں اب حاصل خان کے بار بار مذاکراتی اور مذاکرات کرنے والوں کے وضاحت کے ساتھ مطالبات کو قابل حل اور مقامی کہنے کے باوجود دوسرے فریق کی جانب سے تردید نہیں آنا بہت سے شکوک و شبہات کو جنم دیتے ہیں جس کا مطلب حاصل خان کی باتوں کا تصدیق بھی ہوسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچ قومی مسئلہ ہرگز پاکستان کا اندرونی مسئلہ نہیں بلکہ بلوچستان ایک مقبوضہ خطہ اور پاکستان قبضہ گیر ہے جن میں رشتہ صرف قابض اور مقبوضہ کا ہے اور پاکستان کی جانب سے بلوچ مسئلے کو اندرونی قرار دے کر مذاکرات یا چند شخصیات کو ذاتی یا گروہی مراعات دینے سے یہ مسئلہ حل ہوچکا ہوتا تو گذشتہ ستر سالوں سے ایسی کوششیں کئی مرتبہ ہوچکی ہیں لیکن اُن کا نتیجہ بلوچ قوم اور دنیا کے سامنے ہے، بلوچ قوم کا بنیادی مسئلہ قومی آزادی کا ہے جس کے لئے قوم نے ہزاروں کی تعداد میں اپنے فرزند قربان کیئے ہیں اور قربانیوں کا یہ سفر اب تک جاری ہے۔
چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا کہ ستر سالوں کی تاریخ ہمارے سامنے ہے کہ بڑے بڑے برج یا بڑے سیاسی قد و قامت کے مالک شخصیات پاکستان کی خوشنودی کے لئے بلوچ قومی تحریک آزادی سے انحراف یا دھوکہ دہی کے نتیجے میں نہ صرف اپنے نام و مقام سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں بلکہ آج تک بلوچ قوم انہیں دشمن کے صفوں میں شمار کرتا ہے لہٰذا آج بھی تحریک کے صفوں میں سے کوئی ماضی کے تجربے کو دہرانے کی کوشش کرتا ہے تو اس کا انجام بھی مختلف نہیں ہوگا آزادی کی تحریک بلوچ قوم کی اجتماعی قربانیوں کا ثمر ہے کسی کا ذاتی جاگیر نہیں جو جس طرح چاہے اسے داغدار کرنے کی کوشش کرے۔
انہوں نے کہا دو دہائیوں سے جاری ننگی عسکری بربریت، ہزاروں بلوچوں کی شہادت، ہزاروں کی زندانوں میں اسیری کے باوجود پاکستان کی مذاکرات کے لئے سرگردانی اس امر کا ثبوت ہے کہ بلوچ قوم کی اکثریت آزادی کے تحریک سے وابستہ ادارتی بنیادوں پر تشکیل شدہ اصل قوتوں کے ساتھ ہے اور پاکستان اس وابستگی میں دراڑ پیدا کرنے کے لئے مختلف حربے اور جتن استعمال کرتا رہتا ہے لیکن یہ پاکستان کی خام خیالی ہے کہ وہ کسی شخصیت سے مذاکرات کے ذریعے بلوچ قومی تحریک کو دبانے یا اس کا رخ اصل سمت سے موڑنے میں کامیاب ہوگا۔
چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا کہ پاکستان اوراس کے حاصل خان جیسے زرخریدوں میں یہ اخلاقی جرات نہیں ہے کہ وہ یہ تسلیم کریں کہ بلوچستان پر پاکستان نے ناجائز طور پر قبضہ کیا ہے اور بلوچستان ایک مقبوضہ ملک ہے لیکن یہ تاریخ کا سچ بن چکا ہے کہ پاکستان اور اس کے زرخرید ظلم، جبر، بربریت اور ہزارہا حیلہ و حربوں سے پاکستان کی قبضہ گیریت کو جائز نہیں ٹھہرا سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ چند ایک شخصیات کی واپس پاکستانی فریم ورک میں سیاست یا قومی موقف سے انحراف سے بلوچ قومی تحریک کو قطعاََ نقصان نہیں پہنچتا ہے بلکہ ان کی سیاسی حیثیت ختم ہوجائے گا اور انہیں بلوچ قوم ماضی کے ان شخصیات کے صفوں میں شمار کرے گا جن کے مشکل مراحل پر قدم ڈگمگائے اور وہ پاکستانی پارلیمان کے غلام گردشوں میں اپنی ساکھ اوراعتبار کھوبیٹھے۔