کوئٹہ پریس کلب کے سامنے بلوچستان سے جبری طور پر لاپتہ افراد کی عدم بازیابی کے خلاف وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے احتجاج کو 3700 دن مکمل ہوگئے۔ سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے افراد نے کیمپ کا دورہ کیا جبکہ اس موقعے پر انسانی حقوق کی کارکن حوران بلوچ بھی کیمپ میں موجود تھی۔
وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج پوری بلوچ قوم کو چھوڑیں صرف اگر لاپتہ اور شہیداء کے لواحقین سیاسی جماعتوں کے ساتھ سڑکوں پر پرامن احتجاج کے لیے نکلیں تو مصر اور تیونس کی طرح کے نتائج سامنے آئینگے لیکن افسوس کہ خوف اور ناسمجھی کی وجہ سے ہزاروں کی تعداد میں لاپتہ افراد کے لواحقین میں سے صرف چند خاندان پریس کلب کے سامنے احتجاج کررہے ہیں باقی سب خفیہ اداروں اور ریاستی زرخرید قاتلوں کی دھمکیوں سے یا تو مکمل خاموش ہیں یا دن رات ریاستی اداروں کے دروازوں پر بے عزتی کے ساتھ ہاتھ پھیلائے کھڑے ان کی منت سماجت کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا روز کی منت سماجت اور بے عزتی کی بجائے ایک ساتھ سڑکوں پر نکلنا ہوگا، آخر کتنوں کو مارا جائے گا۔ ماما قدیر نے اظہار یکجہتی کرنے والے ایڈوکیٹ فوزیہ زہری کے سوال کے جواب میں کہا کہ آج یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ بلوچ خواتین اپنی قابلیت و صلاحیتوں کی وجہ سے کسی بھی میدان میں کمزور نہیں ہیں، یہ تاریخی حقیقت ہے کہ اگر دنیا کی دیگر قوموں کی خواتین جہد کرسکتی ہے تو ہماری ماں بہنیں بھی کسی سے کم نہیں ہیں۔ آج اگر سیاسی میدان میں خواتین موثر کردار ادا کررہی ہے تو یقیناً وہ مسلح جدوجہد میں بھی بہترین سپاہی بن کر اپنے دشمن کے خلاف لڑیں گی۔
ماما قدیر نے کہا لاپتہ افراد کے حوالے سے بلوچ خواتین نے اہم کردار ادا کیا ہے جبکہ لاپتہ افراد کے جہد کو کچلنے کی خاطر پاکستان کئی عرصے سے کوشش کررہی ہے لیکن اسے کامیابی نہیں ملی ہے، ریاست کی جانب سے تشدد، اغواء اور گرفتاریوں سمیت مراعات اور لالچ و دھمکیوں کے انبار لگا چکی ہے لیکن ردعمل میں پرامن جدوجہد مزید موثر ہوکر شدت اختیار کررہی ہے اور اسہ وجہ سے آج بلوچ لاپتہ افراد کا مسئلہ دنیا کو اپنی جانب متوجہ کرچکی ہے۔