تقابلِ اخترمینگل و ثناء اللہ زہری
تحریر: برزکوہی
دی بلوچستان پوسٹ
مجھ سمیت کئی بلوچوں کو سردار اخترمینگل سے نظریاتی و سیاسی طور پر لاکھ اختلافات، مگر اس کے باوجود ثناء اللہ زہری سے جب تقابل کرکے دیکھتے ہیں تو دل میں اختر مینگل کیلئے ضرور ہمدری پیدا ہوتی ہے، پتہ نہیں کیوں؟ اس امر کا ادراک اب سردار اختر مینگل کو کرنا پڑے گا کہ جب گذشتہ دنوں ثناء اللہ زہری اختر مینگل کے خلاف پریس کانفرنس کرتے ہیں تو زہری قبیلے کے (ناجائز) سردار ہوتے ہوئے، چیف آف جھالاوان ہونے کے باوجود، اپنے آبائی علاقے انجیرہ زہری میں بیٹھے ہونے کے باوجود، پاکستانی فوج و آئی ایس ائی اور ایم آئی کی مکمل پشت پناہی حاصل ہونے کے باوجود، مال و زر اور مراعات سے مالا مال ہونے کے باوجود، دھونس و دھمکی، خوف و دہشت اور بلیک میلنگ کے باوجود، اس کے پاس صحافیوں اور باڈی گارڈز کے بشمول بمشکل پچاس بندے بھی بیٹھنے کو تیار نہیں ہوتے ہیں۔ اور یہ بھی سب کو بخوبی علم ہے اس پریس کانفرنس میں اکثریت چور، ڈاکو، بھتہ خور، سیاہ کار اور بلوچ سماج کے گرے ہوئے بندوں کے علاوہ کچھ خوف و لالچ کے شکار لوگوں کو زبردستی لاکر بٹھایا گیا تھا۔ ثناء اللہ زہری کے اصل حقیقت کا اظہار شاید اس سے بہتر انداز میں نہیں ہوسکتا تھا کہ وہ قوم دشمنی راہ پر چلتے نا قبائلی حیثیت رکھ پائے نا سیاسی بلکہ اسکی حیثیت علی بابا چالیس چور کی سی رہ گئی۔
اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے اور یہ حقیقت آشکار ہوکر، اس امر کی تصدیق پوری طرح کرتی ہے کہ اب بلوچ سماج میں قبائلیت اور قبائلی سوچ اپنی آخری سانس لے رہا ہے اور ان آخری سانسوں کیلئے آکسیجن بھی پاکستانی “جی ایچ کیو” سے مہیا ہورہا ہے۔ کیونکہ جب قبائلیت اپاہچ ہو تو پھر چیف، نواب، سردار، میر و معتبروں کی کوئی حیثیت ہی نہیں بچے گی۔
دوسری طرف بات اخترمینگل سے ہمدردی کی کیجائے، وہ اس لیئے نہیں کہ اخترمینگل، مینگل قبیلے کا سردار ہے یا سردار عطاء خان مینگل کا بیٹا ہے یا شہید اسد بلوچ کا بھائی ہے بلکہ اس لیئے کہ اخترمینگل عملاً تھوڑا بہت کچھ ہے یا نہیں لیکن کم از کم باتوں، دعووں، نعروں اور تقریروں سے بلوچ اور بلوچستان کے شہیدوں اور لاپتہ لوگوں کی بات کرتا ہے اور قبائلیت و قبائلی سوچ کی ظاہری طور پر پرچار نہیں کرتا ہے اور ان کے والد محترم سردار عطاء اللہ مینگل بھی کہتا ہے کہ قبائلیت ختم ہوچکی ہے، اور سب سے بڑی بات اگر وہ بلوچ تحریک میں کوئی مدد ثابت نہیں ہوئے ہیں لیکن کم از کم عملاً و قصداً کوئی رکاوٹ بھی بننے کی کوشش نہیں کی ہے۔ اس بنیاد اور سوچ پر بلوچ قوم، انہیں بلوچ سمجھ و جان کر ان کے ساتھ ہمدردی رکھتی ہے۔
اگر اسی تناظر میں دیکھا جائے، اگر سردار اختر مینگل حقیقی بنیادوں پر، خالص بلوچ نیشنلزم کی بنیاد پر، قومی نجات و آزادی کے لیئے ایمانداری و مخلصی سے پاکستانی وفاقیت سے نکل کر بلوچ قومی آزادی کی جدوجہد کرتے تو بلوچ قوم میں اس کی قدر و اہمیت کہاں اور کس مقام پر ہوتا؟جبکہ آج محض نام نہاد بلوچ قوم پرستی، بلوچ شہداء اور لاپتہ افراد کا صرف نام لینے اور ذکر کرنے سے ثناء اللہ زہری کے نسبت اخترمینگل کی قدر و قیمت بلوچ قوم میں زیادہ ہے گوکہ سردار اخترمینگل شروع سے اس فن و ہنر میں ماہر ہے کہ وہ مئے خانہ جاکر ساقی سے بھی یاری رکھتا ہے اور کعبہ جاکر توبہ بھی کرتا۔
آج ایک طرف شہید لونگ خان مینگل کے بیٹے قمبر خان مینگل جیسے لوگ بھی اختر مینگل کے ہم کوپہ اور حمایتی ہیں، جس کے ہاتھ سینکڑوں بلوچوں کی گمشدگی، اغواء اور شہادت سے رنگین ہیں، جو آج صرف قلات کے علاقے ہی نہیں بلکہ پورا بلوچستان اور بلوچ قوم قمبر خان مینگل اور اس کے بیٹوں کے سیاہ اور ظالمانہ کرتوتوں سے اچھی طرح واقف ہے، آج ثناء اللہ زہری، شفیق مینگل، سراج رئیسانی، کوہی مینگل، ضیاء لانگو، سرفراز بگٹی وغیرہ اور قمبر خان مینگل اور اس کے بیٹوں کے عمل و کردار میں کوئی ایک فیصد بھی فرق نہیں ہے تو قمبر خان مینگل کا کردار و عمل خود اخترمینگل کے کردار و عمل دعووں اور باتوں پر سوالیہ نشان ہے، اگر وہ قبائلی حوالے سے قمبر خان کو سپورٹ کرتا ہے اور قمبر خان اختر مینگل کو سپورٹ کرتا ہے تو جلد مستقبل قریب میں اختر مینگل کا پوزیشن ثناء اللہ زہری اور شفیق مینگل سے بدتر ہوسکتا ہے۔
ایک طرف آج اختر مینگل پاکستانی خفیہ اداروں کے ہاتھوں ہزاروں بلوچوں کی گمشدگی کو ظلم و جبر قرار دیکر ان کی بازیابی کی بات کرتا ہے، دوسری طرف اخترمینگل کے حمایتی اور بازو قمبرخان مینگل و اس کے بیٹے پاکستانی خفیہ اداروں اور خاص طور پر وزیرداخلہ ضیاء لانگو کے ساتھ ملکر بلوچ نواجوانوں کو لاپتہ کررہے ہیں، تو پھر کیا یہ کھلا تضاد اور بلوچ قوم کو دھوکا دینے کے مترادف نہیں ہے؟ پھر اس کا نتیجہ کیا ہوگا؟ یہ اختر مینگل کو سمجھنا ہوگا۔
ابھی اگر ہمیں، قومی آزادی کی علمبرداروں کو سوچ و سمجھ، علم و شعور، ادراک اور بصیرت ہو کہ جب نام نہاد قومی پرستی پاکستانی و پارلیمانی مراعات، لالچ و بھتہ خوری، کرپشن، ٹھیکہ، خوف، دھونس و دھمکی، چاپلوسی اور درباری سیاست میں قبائلیت اور قبائلی سوچ، میری و معتبری کی سوچ و طرز کردار کا زوال ہوتا ہے، تو پھر جہاں قومی آزادی کا فکر و عمل ہو، جان و مال کی قربانیاں ہوں، وہاں پر ایسی سوچ و خیالات کی کیا اوقات و قدر ہوتی ہے؟ پھر ایسی سوچ، ایسے خیالات باعث زوال نہیں بنتے تو کیا بنتے؟
سیدھی سی بات ہے، جب جہدوجہد اور بات بلوچستان کی ہوگی اور بلوچ قومی آزادی کی ہوگی تو پھر پہچان اور کردار و عمل بھی عملاً بلوچ ہو، اگر تھوڑا بہت آثار علاقائیت و قبائلیت کا ہوا پھر یہ تضاد خود جہدکار ہو یا رہنماء کے کردار پر سوالیہ نشان ہوگا اور یہ سوالیہ نشان آخر کار زوال کا سبب ہوگا، پھر قوم متحد نہیں بلکہ اسی تضاد کے بھینٹ چڑھ کر تقسیم در تقسیم کا شکار ہوگا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔