پاکستانی جارحیت کا مقابلہ اور جدوجہد کا تسلسل برقرار رکھنا بلوچ قوم کی فتح کا علامت ہے۔ چیئرمین خلیل بلوچ
بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی انفارمیشن سیکریٹری دل مراد بلوچ نے کابینہ اجلاس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے کہا کہ بی این ایم کی مرکزی کابینہ کا تیسرا اجلاس بمورخہ 6 اگست 2019 زیر صدارت چیئرمین خلیل بلوچ منعقد ہوا۔ اجلاس میں سیکریٹری جنرل ڈاکٹر مراد بلوچ، انفارمیشن و کلچرل سیکریٹری دل مراد بلوچ، ڈپٹی سیکریٹری جنرل استاد بابل لطیف بلوچ، فنانس سیکریٹری ناصربلوچ، لیبر کاشتکار و ماہی گیری سیکریٹری چیف اسلم بلوچ شریک ہوئے۔
اجلاس میں پارٹی امور، بلوچستان، خطہ اور عالمی سیاسی صورت حال سمیت مختلف ایجنڈے زیر بحث آئے اورمختلف فیصلے کئے گئے۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا کہ دشمن کی جبر، بلوچستان میں روزانہ کی بنیاد پر جاری آپریشن اور وقت وحالات کی وجہ سے طویل مدت کے بعد آج کابینہ کا اجلاس منعقد ہو رہا ہے۔ اس اجلاس میں ڈاکٹر منان جان کی نشست پر ڈاکٹر مراد بلوچ جیسے سیاسی رہنما تشریف فرما ہیں اور میں امید کرتا ہوں کہ وہ پارٹی میں ڈاکٹر منان جان بلوچ کے خلاء کو پر کرنے کی کوشش کریں گے۔
چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا کہ دشمن ہماری تحریک کو زیر کرنے کے لئے درندگی اور حیوانیت کے تمام حدود پار کرچکا ہے۔ننگی فوجی جارحیت، آپریشن، بلوچ نسل کشی روز کا معمول بن چکا ہے لیکن دشمن اپنے تمام تر حیوانیت کے باوجود بلوچ کو زیر کرنے میں ناکام ہے۔ پاکستان کی جارحیت کا مقابلہ اور جدوجہد کا تسلسل برقرار رکھنا بلوچ قوم کی فتح کا علامت ہے۔ اس تسلسل کو منزل کے حصول تک برقرار رکھنے میں بلوچ قوم اور بلوچ نیشنل موومنٹ کے قائدین، کیڈر اور کارکنوں نے لازوال قربانیاں دی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ خطے میں پاکستان اپنی دہشت گردی نواز پالیسیوں سے خطے میں آتش و آہن کا جو سلسلہ دہائیوں سے چلاتا آرہا ہے، اب حالات تیزی سے بدل رہے ہیں اور خطے کے اقوام میں احساس جاگ رہا ہے کہ پاکستان کی وجود ایک ناسور ہے اور اس کی موجودگی میں خطے میں امن وسلامتی ایک خواب ہی رہے گا لہٰذا بلوچ قوم خطے کے دیگر اقوام کے ساتھ مشترکہ دشمن کے خلاف مشترکہ محاذ بنانے کے لئے ہمہ وقت تیار ہے۔ ہم امید کرتے ہیں خطے کے اقوام اور عالمی طاقت اس امر پر ضرور غور کریں گے۔
کابینہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر مراد بلوچ نے کہا کہ آج خطے میں نہ صرف سیاسی بلکہ جغرافیائی حالات اور عالمی طاقتوں کے مفادات و ترجیحات بھی بدل رہے ہیں۔ خطے میں مختلف جنگیں جاری ہیں لیکن یہ دیکھنا بہت ضروری ہے کہ جنگ یا تحریکوں کو کون سی طاقت اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے استعمال کررہا ہے۔ خطے میں جاری جنگ یا تحریکوں میں بلوچ قومی تحریک ایک انڈیجینئس (Indigenous) موومنٹ ہے، کثیرالجہتی بلوچ قومی تحریک تمام جہات میں اپنی تاریخی اقدار، سرزمین سے فکری و روحانی رشتہ اورقبضہ گیرکے مظالم اوراحساس غلامی کا پیداوار ہے اورکسی بھی طرح سے بیرونی آلائش اورعناصر سے پاک ہے۔
انہوں نے کہا کہ جس طرح بلوچ قوم خطہ یا دنیا میں جاری گریٹ گیم کے اثرات سے بہرصورت متاثر ہوسکتا ہے، اسی طرح بہت سے ممالک یا ان کی مفادات بھی ہماری جنگ سے متاثر ہورہے ہیں جن میں پاکستان کے حلیف اورحریف دونوں شامل ہیں۔ ان میں چین سرفہرست ہے۔ چین یہاں سامراجی عزائم لے کر وارد ہوا ہے۔ ترقیاتی منصوبوں کی آڑ میں وسیع پیمانے پر تزویراتی سرمایہ کاری کرچکا ہے اور بلوچ سرزمین سے محض چینی آبادکاری کے لئے انہیں ہزاروں ایکڑ زمین الاٹ کیا گیا ہے۔ چین جیونی میں میرین نیول بیس تعمیر کررہا ہے۔ گوادر میں ہزاروں کی تعداد میں سب میرین کی تعیناتی عمل میں آچکا ہے۔ اس کے علاوہ یہاں مزید آبادکاری کیلئے بڑے منصوبے کی تکمیل کی کوشش میں ہے۔ پاکستان اور چین بلوچستان میں آبادیاتی تبدیلی لانا چاہتے ہیں۔ ڈاکٹر مالک جیسے بلوچ قومی منحرف اور پاکستان کے ہمکار بھی اس اعتراف پر مجبور ہو چکے ہیں کہ بلوچستان میں جتنی چینی سرمایہ کاری ہو رہا ہے اس میں سے صرف ریت اور بجری بلوچستان کا ہے دیگر لیبر، مشینری اور منافع چین کو مل رہا ہے اور اس میں بلوچ قوم کا کوئی مفاد شامل نہیں۔
ڈاکٹر مراد بلوچ نے کہا جب افغانستان کا بفر حیثیت کا خاتمہ ہوا تو بلوچستان اور بلوچستان کے گرم پانیوں تک بعض ممالک نے رسائی کے لئے کوششیں کیں۔ روس کی افغانستان میں مداخلت محض وہاں تک محدود نہیں تھی بلکہ وہ بلوچستان تک پہنچنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ اس مقصد میں ناکامی ان کی یا ان کی اتحادیوں کی ناکامی تھی لیکن آج چین اپنے سامراجی عزائم اور بے پناہ سرمایہ کے ساتھ بلوچ سرزمین پر چڑھائی کرچکا ہے۔ یہاں ہمیں یہ خدشہ لاحق ہے کہ عالمی دنیا میں مفادات کی جنگ میں ہر طاقت اپنے مفاد کا تحفظ چاہتا ہے۔ اس وقت امریکہ اور چین کے درمیان تزویراتی کے ساتھ تجارتی جنگ بھی عروج پر ہے۔
ڈاکٹر مراد بلوچ نے کہا آج تیزی سے بدلتی صورت حال میں سب سے اہم پوزیشن بلوچ قوم کا ہے۔ بلوچ سرزمین اور اس کے جغرافیائی و تزویراتی اہمیت نگاہوں کا مرکز بن چکا ہے۔ سیاسی و جغرافیائی حالات میں تبدیلی اور مفادات کی جنگ میں یہ امر بلوچ پر انحصار کرتا ہے کہ کس طرح سیاسی و سفارتی محاذ پر اپنی کارگر، منظم و موثر حکمت عملی سے عالمی طاقتوں کے مفاداتی جنگ میں اپنی قومی تحریک، قومی بقا اور سرزمین کا دفاع کریں گے اور عالمی یا علاقائی طاقتوں کی سرد یا گرم جنگ سے اپنی تحریک کو کیسے محفوظ بناسکتے ہیں کیونکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ خطے کے حالات اور عالمی طاقتوں کے مفادات ہمیں متاثر کرنے کی کوشش کریں گے۔ اگر ہم نے عاقبت نااندیشی یا خوش فہمی کاشکار ہوکر بلوچ قومی مفاد کے تحفظ میں ناکام ہوگئے تو اس کے اثرات صدیوں تک بھگتنے پڑیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہماری قومی تحریک کا کمزور ترین پہلو سیاسی میدان میں سفارتی محاذ ہے۔ پارٹی بنیادوں پر تحریک کی مختصر عمر اور سفارتی محاذ پر ناتجربہ کاری سے اب تک ہم وہ کامیابیاں حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے جن کا ہماری تحریک تقاضا کرتا ہے۔ اس جدید دور میں ضروری بن چکا ہے کہ سفارتی محا ذ پر جنگی بنیادوں پر کام کیا جائے۔ اس مقصد کے لئے جدید طریقے اپناکر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر مراد بلوچ نے کہا ہمیں بحیثیت بلوچ دنیا میں ایک پہچان مل چکا ہے۔ دنیا بھر بلوچستان کو ایک متنازعہ خطہ تسلیم کیا جارہا ہے۔ مختلف ممالک بلوچ کو بطور مہاجرین قبول کر رہے ہیں۔ سیاسی کارکنوں کو اسی بنیاد پر سیاسی پناہ دیا جا رہا ہے کہ بلوچستان ایک جنگ زدہ اور متنازعہ خطہ ہے جس میں بلوچ نسل کشی ہو رہی ہے۔ یہ بھی ہماری تحریک کی کامیابی ہے کہ آج چین کھلم کھلا اعلان کررہا ہے کہ وہ بلوچوں کو مراعات دیں گے اگر وہ (بلوچ) سمجھوتہ کے لئے تیار ہیں تو اس کا صاف مطلب یہی ہے کہ چین کو احساس ہو چکا ہے کہ محض پاکستان کے ذریعے وہ بلوچستان میں اپنے قدم نہیں جماسکتا ہے۔ بلوچ قوم نے چینی مفادات کو زبردست نقصان پہنچایا ہے اور چینی سامراجی منصوبے بلوچستان میں ٹھپ ہوکر رہ گئے ہیں۔
ڈاکٹرمراد بلوچ نے خطے کے حالات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ بظاہر خطے میں حالات گرم جنگ کی جانب بڑھتے نظر آرہے ہیں لیکن حقیقت میں عالمی یاعلاقائی طاقت سفارتی محاذ، اپنے اپنے پروکسی اور سرد جنگ کے ذریعے اپنے مفادات کی تکمیل کے کوششوں میں مصروف ہیں۔ چین اور امریکہ بڑے تجارتی اور اسٹریٹیجک حریف کے طورپر آمنے سامنے ہیں۔ یہاں ہندوستان ایک بڑے معاشی اور عسکری طاقت کے طور پر ابھر رہا ہے لیکن عالمی طاقتوں کے درمیان دوستی اور دشمنی مفادات کی بنیاد پر بنتے اور بگڑتے ہیں، ہمیں دیکھنا ہوگا کہ بلوچ قومی مفاد کہاں اورکس سے ہم آہنگ ہوتا ہے کیونکہ اس نازک صورت حال میں بلوچ قوم کو بہرصورت اپنا مفاد آگے رکھ کر قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ جذباتیت یا ہوائی قلعے تعمیر کرنے سے ہم بلوچ قومی مفاد کا تحفظ نہیں بلکہ اسے بے پناہ نقصان سے دوچار کریں گے۔
ڈاکٹر مراد بلوچ نے کہا کہ ہم میڈیا سے محروم ہیں۔ پاکستانی میڈیا یک طرفہ پاکستانی فوجی موقف کی تشہیر اور بلوچ قوم کے خلاف دن رات پروپیگنڈہ کے لئے معمورہے لیکن سوشل میڈیا ہمیں موقع فراہم کرتاہے کہ ہم اپنی آواز موثر اور منظم طریقے سے دنیا تک پہنچائیں۔ پارٹی کارکن اس میدان میں اپنی صلاحیتیں اور ہنر ہر ممکن صورت میں بلوچ قومی آواز دنیا تک پہنچانے کے لئے روبہ استعمال لائیں۔
اجلاس میں تنظیمی امور،بلوچ مہاجرین کی فلاح و بہبودوتربیت سمیت مختلف فیصلے کئے گئے،اجلاس میں یہ فیصلہ بھی کیاگیا کہ چھبیس اگست کو نواب اکبرخان بگٹی سمیت شہدائے اگست کی یوم شہادت پرمرکزی اورذیلی سطح پر ریفرنس کانعقاد کیاجائے گا اوربلوچستان و دنیا بھر میں ہر ماہ کے شہداء کی یاد میں ریفرنس کااانعقادکیاجائے گاپارٹی امورسے متعلق دیگرفیصلوں کی تفصیلات سرکولرزکے ذریعے متعلقہ عہدیداروں اورکارکنوں تک پہنچائے جائیں گے۔