بیمار نسل
تحریر۔ نادر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
غلامی اور غلامی کے خلاف جہدِ مسلسل کے دوران قوم اور سماج میں ایک بیمار و مفلوج نسل بھی جنم لیتی ہے، جو جسمانی طور پر جیسے تیسے کرکے صحت مند نظر آتے ہیں، مگر نفسیاتی طور پر نیم یا مکمل طور پر مفلوج ہوتے ہیں۔ اس نسل میں بعض افراد متواتر علاج، مثبت تعمیری و تربیتی سرکلز کی مدد سے قابل علاج ہوتے ہیں، مگر چند بدنصیب ایسے رہ جاتے ہیں جو علاج معالجے کے بس میں نہیں ہوتے ہیں۔ قوم پرستی، وطن اور قوم سے لگاو،جذبہ ایثار، محبت اور حب الوطنی کے بے مثال چاہت کا نام ہے، قوم کے دیگر اجزاء ، وطن، جغرافیہ، ثقافت، فرزندوں، عورتوں، ماوں، بہنوں، بچوں سے عمل کی بنیاد پر برتاو اور عمل، ایک سچے قوم پرست کردار کا تعین کرتی ہے۔ یہ کردار اچھا انسان اور سچا قوم پرست بننے میں مدد گار ثابت ہوتی ہے۔ جبکہ غلامی سے اٹھنے والی بدبودار تعفن کا سب سے پہلا وار اور زہریلا اثر انسانی دماغ و نفسیات پر براہ راست اثر انداز ہوتی ہے۔
طویل غلامی نے بلوچ قوم پر دیر پا اور موذی نفسیاتی بیماریوں کے اثرات چھوڑی ہیں۔ عوام پر ان امراض کے اثرات ہوتے ہیں لیکن عوام موثر سیاسی حکمت عملی سے علاج کے بعد شفایاب بھی ہوجاتی ہے۔ یہ مرض سیاسی کیڈر، مایوس، مفاد پرست، چاپلوس اور موقع پرست سیاسی کارکنوں کی نفسیات کو بھی اپنی لپیٹ میں لیتی ہے۔ یہ رجحان خطرناک اور ردانقلابی ثابت ہوتی ہے۔ قومی تحریک آزادی کو ناکام کرنے کیلئے اور ریاستی کاسہ لیس بننے کیلئے یہ کیڈر ہمیشہ دستیاب ہوتی ہے، اس لیئے تحریک کو فیصلہ کن مرحلے میں پہنچانے کیلئے قوم پرستی سے منحرف ایسے کرداروں کی بیخ کنی کیلئے سنجیدہ اور سخت فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔ اس نسل میں سینکڑوں ایسے کردار ہوتے ہیں جو ارادتا” ریاستی آسائشوں کی لالچ میں قومی لج و معیار کا سودا کرتی ہیں۔
بلوچ سیاست میں قوم پرستی کو ہمیشہ سے ایک بنیاد اور اولیت کی اہمیت حاصل رہی ہے، ہزاروں سیاسی کارکنوں اور سینکڑوں رہنماوں نے قوم پرست نظریئے کی آبیاری اپنے خون سے کی ہے، نوری نصیر خان سے لیکر تنظیمی سطح پر بی ایس او کی سیاسی نرسری سے نکل کر بلوچ فرزند عملی زندگی کے تمام شعبوں میں متحرک کردار ادا کرتے ہوئے قومی سوچ و فکر کی نگہبانی کرتے رہے ہیں۔ قوم پرستی کی بنیاد پر قائم تنظیموں کیلئے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے کیڈر سے ربط قائم کرنے کیلئے باقائدہ تنظیمی پروگراموں کی توسط سے عوام میں شامل اپنے ہمددردوں اور دشمنوں کی پہچان کریں، انکی نظریاتی تراش خراش کریں تاکہ سیاسی کیڈر وقت اور ریاستی حربوں سے زنگ آلود ہونے سے بچ پائیں۔ اس سے انکو مایوس، چاپلوس، اور موقع پرست پیدا گیروں سے دور رکھنے میں مدد ملتی ہے جو بیمار نسل سے الگ رہ کر ایک انقلابی پہچان رکھ پائیں گے۔
پارلیمانی اور غیر پارلیمانی سیاست نے بلوچ قوم پرست سیاست کو دو حصوں میں تقسیم کردی ہے۔ ہم آہنگی، اعتبار کی کمی، ریاستی چال بازیوں، مفاد و موقع پرستوں نے اس تقسیم کو مزید گہرا کرنے میں مدد دی ہے اور نظریاتی جہد کو پنپنے میں مدد کے بجائے انکی حوصلہ شکنی کا سبب بنتے رہے ہیں۔ بیمار نسل نے ہمیشہ نظریاتی کارکنوں اور تنظیموں، پارٹیوں کے سامنے رکاوٹ بن کر قومی مقصد سے دور رکھنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اس نسل کی پہچان کرنا، تنظیمی قیادت و کارکنوں کی ذمہ داری ہے ورنہ یہ ریاستی ایجنٹ وقتاً فوقتاً کمر میں خنجر گھونپتے رہیں گے اور قوم کو قومی منزل سے دور رکھیں گے۔ خوشی اور غم, عروج و زوال کے اس چکر ویو میں قومی مفادات کی ہر صورت میں تحفظ کرنا ہی حقیقی قوم پرستی کی روح کو قائم کرنے میں مدد کرتی ہے۔ جو بیمار نسل کو اپنے مکروہ مقاصد حاصل کرنے سے روکنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔
بلوچ قومی آزادی کو حاصل کرنے میں محاذ پر موجود متحرک سیاسی، سماجی و مزاحمتی تنظیموں کی بے پناہ کاوشوں، قربانیوں نے اقوام عالم کے سامنے بلوچ قومی مسئلے و قومی غلامی کے خلاف جہد آزادی کو اجاگر کرنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔ جسکی واضع مثال بین الاقوامی سطح پر جاری کامیاب اشتہاری مہمات، احتجاج اور امریکہ کی جانب سے جہد میں مشغول تنظیمی قوت و بلوچ حق خودارادیت کا اقرار ہے۔ قابض ریاست کی بدلتی ہوئی پالیسیاں، تذبذب سے بھر پور اعلامیئے، ریاستی ناکامیوں کی طویل داستان پیش کر رہی ہیں۔ جس محاذ کو قبضہ گیر، دنیا کی دیگر طاقتوں سے ظلم جبر و جبری گمشدگیوں سے چھپانا چاہتی تھی آج بلوچ جہد کاروں، سیاسی کارکنوں کی کامیاب حکمت عملیوں، فدائین کی بے باک قربانیوں کی بدولت، بلوچستان میں سب کچھ اچھا ہے کا راگ الاپنے والی ریاست آج خود اپنے جانی اور مالی نقصانات پریس میں بیان کررہی ہے۔ عروج و زوال کا قانون، اس بیمار نسل و ریاست کو قدرت کے اس اٹل فیصلہ و قانون کے سامنے سرنگوں کرے گی۔ جیت، کامیابی و کامرانی سے بلوچ قوم کی آزاد و خودمختیار وجود جنم لیگی۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔