بولان میڈیکل یونیورسٹی، طلباء کیساتھ نارواسلوک
تحریر : گوہرام اسلم بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچستان روز اول سے صحت و تعلیم سمیت ہر شعبے میں پسماندہ ہے، مگر شعبہ طب مصائب اور انتظامی کمزوری و غفلت کے ساتھ ساتھ اخلاقی طور پر بھی بدعنوانی کا شکار ہے۔ ایک سنگین نوعیت کا مسئلہ جو گذشتہ دنوں سے سوشل میڈیا پر زیادہ موضوع بحث ہے کہ گذشتہ روز بولان میڈیکل یونیورسٹی کوئٹہ کے طالبات کے مطابق رات کو ایک فیمیل اسٹوڈنٹ کی طبعیت خراب ہونے کی وجہ سے ہم لائبریری گئی تھیں تو واپسی پر ہمیں گیٹ پر روکا گیا اور ایک طالبہ کیساتھ بدتمیزی کی گئی۔ فیمیل اسٹوڈنٹس کو سیکورٹی پولیس کی جانب سے حراساں کرنے کے واقعے پر بلوچستان سے تعلق رکھنے والے تمام سوشل میڈیا ایکٹیوسٹس اور طلباء تنظیمیں اس واقعے پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کر رہے ہیں کہ اس واقعے کی صاف شفاف تحقیقات کی جائے اور ملوث پولیس آفیسران کے خلاف پوری طور پر کاروائی کی جائے کیونکہ اس نوعیت کے واقعات میں کسی بھی معاشرے میں جذبات قابو میں نہیں رہیں گے۔
اگر کسی ادارے میں فیمیل پولیس کانسٹیبل ہوتے ہوئے سیکورٹی کے نام پر طالبہ کے ساتھ مرد پولیس کا ناروا سلوک ادارے اور منتظمین پر ایک سوالیہ نشان ہے، بی ایم سی جیسے ادارے میں اگر بلوچ و پشتون طالبات کیساتھ تحفظ فراہم کرنے والے خود اسطرح کی حرکتوں میں ملوث پائے جاتے ہیں تو یہ ادارے کےسربراہان اور حکومت کی بڑی ناکامی ہے۔ اس مسئلے پر بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پجار ‘ بی ایس او ؛ کے صوبائی صدر گورگین اور بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی ” بی ایس اے سی “کے چیئرمین ڈاکٹر نواب بلوچ ، ڈاکٹر شلی بلوچ ، ڈاکٹر صبیحہ بلوچ ، ڈاکٹر سمرین بلوچ کا کہنا تھا کہ بحیثیت طلباء تنظیم کے بلوچستان اور کیمپس کے اندر پرامن تعلیمی ماحول کا قیام ہماری تنظیمی و معاشرتی ذمہ داری ہے، جس سے ہم کبھی بھی مبرا نہیں ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ گذشتہ رات بولان میڈیکل یونیورسٹی میں طلبہ پر پولیس کا تشدد کا ایک انتہائی غیر مہذب اور نا قابل برداشت واقعہ ہے، جسکے لیئے محض مذمت کافی نہیں، ملوث عناصر کے خلاف سخت سے سخت ایکشن لیا جائے۔
بولان میڈیکل کالج کے طلبہ پر پولیس کا تشدد نا قابل قبول ہے، میڈیکل کالج کے طلبہ کسی بھی ہسپتال جا سکتے ہیں اور یہی انکا پیشہ ہے البتہ پچھلے چند سال سے سیکیورٹی کے نام پہ طلباء کو بے جا پریشان کیا جارہا ہے، گذشتہ شب طالبہ وارڈ سے دس بجے کے وقت واپس ہاسٹل آرہی تھیں تو پولیس آفیسر نے انکا تعاقب کیا اور اُن سے پہلے آکر گیٹ پر کھڑے چوکیدار سے چابیاں چھین کر گیٹ پر تالا لگا دیا، جب طالبہ گیٹ تک پہنچیں تو گیٹ بند تھا اور پولیس آفیسر نے دھمکی دی کہ طالب علم رات باہر گُذاریں، جب طالبہ نے اسرار کیا کہ وہ گیٹ کھول دیں، تو پولیس آفیسر نے طلبہ پر تشدد کیا، باقی طلباء گیٹ پر دستک دیتے رہے تھے کہ طلبہ کو بچایا جا سکے، مگر چند ساعتوں کے بعد ہی گیٹ کھلُ پایا، تب جاکر طلباء نے احتجاجًا کالج کا مین گیٹ بند کردیا اور پوری رات روڈ پر بیٹھ کر احتجاج جاری رکھا۔
بولان میڈیکل یونیورسٹی کے گرلز ہاسٹل میں رونما ہونے والا کل کا واقعہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں۔ اس سے پہلے بھی اسی نوعیت کے واقعات ہو چُکے ہیں۔ طلبا تنظیموں کی جانب سے پہلے بھی اس طرح کے لوگوں کے حوالے انتظامیہ کو آگاہ کیا جاتا رہا ہے۔ اور اس مرتبہ کسی بھی صورت اس شخص کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ پولیس والے روز بے جا پوچھ تاج کے بہانے طلباء کو ہراساں کرتے ہیں، گیٹ کے سیکیورٹی کے بہانے 4-5 افراد جم غفیر بنائے بیٹھے رہتے ہیں اور طلبا کو تنگ کرتے ہیں۔ ایک اور طالبہ نے کہا کے وہ بھی جب گیارہ بجے ہاسٹل پہنچی تو پوچھ تاج کے بہانے پولیس آفیسر نے انتہائی نا زیبا الفاظ استعمال کیئے۔
طلباء تنظیم کے ذمہ داروں نے اپنا موقف دیتے ہوئے کہا کہ ہاسٹل میں سوائے عمارت کے کسی چیز کی سہولت نہیں، ہم ہسپتال کی لایبریری میں پڑھنے جاتے ہیں، نہ چاہتے ہوئے بھی مجبوراً ہمیں 9 بجے لازمی لوٹنا ہوتا ہے، مگر واپسی پر یہی پولیس افسران گیٹ کو تالا لگا کر روز دھمکیا ں دیتے ہیں کہ گیٹ نہیں کھولینگے، آپ واپس ہوجائیں، منتوں و سماجتوں کے بعد جاکر گیٹ کھولتے ہیں اور یہ طلبہ کے لیئے ایل معمول بن چکا ہے، مگر کل رات کا واقعہ نا قابل قبول ہے، اب پانی سر سے ُگذر چُکا ہے، انتظامیہ نے اگر سخت اقدام نہ اپنائے، تو والدین اپنے بیٹیوں کو اس ہاسٹل میں رہائش کے لیئے گوارا نہیں کریں گے۔
اس واقعے کے خلاف بولان میڈیکل کالج کے طلباء نے رات روڈ پر گُذاری اور دوسرے روز بھی طلبا کا دھرنا جاری رہا کہ بعد آخر کار وی سے طلباء سے مُلاقات کی اور تحقیقاتی کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا۔
ہم حکومت بلوچستان سے گُذارش کرتے ہیں کہ تحقیقاتی کمیٹی کی نگرانی کی جائے تاکہ ایک شفاف فیصلہ ہو اور طلباء کو انصاف دینے کے ساتھ گرلز ہاسٹل سے پولیس کی غیر ضروری نفری ہٹایا جائے۔ حال ہی میں ملک ” سیکسول ہراسمنٹ ” کا اسپیشل قانون پاس کررہا ہے۔ اگر بلوچستان کے ایک پروفیشنل میڈیکل یونیورسٹی میں اس طرح کا واقعہ پیش آرہا ہے تو ادارے کو چاہیئے کہ اس کے حوالے پوری طور کمیٹی کا قیام عمل میں لائی جائے تاکہ اسطرح کے مسئلے کے تدارک کی آجائے۔
واضح رہے بلوچستان ملک کا وہ واحد پسماندہ صوبہ رہا ہے کہ جنکو ۱۹۷۰ میں صوبے کا درجہ ملنے کے بعد صرف ایک ہی گورننمنٹ میڈیکل کالج تھا اور حال ہی میں سابق حکومت نے مزید تین میڈیکل کالجز ، جن میں مکران، خضدار اور لورالائی میڈیکل کالج کا قیام عمل میں لایا گیا، مگر المیہ یہ ہے کہ ان تینوں میں سے صرف مکران میڈیکل کالج کی بلڈنگ تیار ہے اور وہ بھی ” پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل” پی ایم ڈی سی ” کے معیار پر اُترنے کے حیلے بہانے کی چکر میں انکے انٹری ٹیسٹ کے بعد چھ مہینے تک طلبا و طالبات میرٹ لسٹ آویزاں نہ ہونے کے خلاف سڑکوں پر کیمپ لگا کر کلاسز لینے پر مجبور ہو گئے تھے اور بولان میڈیکل کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا۔
بلوچستان ہر لحاظ سے پسماندہ صوبہ ہونے کے ناطے، اسکے دارلحکومت کوئٹہ میں جہاں بلوچستان سے آئے ہوئے طلبا و طالبات موجود ہیں، کوئٹہ میں حال ہی ایک پبلک لائیبریری کا قائد اعظم کے نام سے بنیاد رکھی گئی ہے، جنکی کیپیسٹی زیادہ سے زیادہ ھ سو نشستوں کی ہے، مگر صبح ہزاروں طلباء قطار میں کھڑے ہوتے ہیں کہ سب سے پہلے ایک نشست مل جائے، یہ ہے تعلیمی پسماندگی کی چھوٹی سی داستان، پھر بھی اس صوبے کے ایک ایسے ادارے میں اسطرح کے واقعے کا ہونالمحہ فکریہ ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔