بلوچ اکیڈمی کا 60واں اجلاس کوئٹہ میں منعقد

360

بلوچی اکیڈمی کوئٹہ کا 60 واں مجلس عاملہ کا اجلاس مورخہ4اگست2019 کو اکیڈمی کمپلیکس کوئٹہ میں منعقد ہوا اجلاس کی صدارت چیئرمین ممتاز یوسف نے کی جنرل سیکرٹری ظاہر جان جمالدینی نے سالانہ کارکردگی رپورٹ پیش کیا جس میں انہوں نے گزشتہ سال کے دوران منعقد کئے گئے ادبی سرگرمیوں اورتقریبات نشر واشاعت ودیگر منصوبوں کے متعلق ممبران کو آگہی دی۔

سیکریٹری اطلاعات ہیبتان عمر نے کتابوں کی چھپائی جبکہ سیکریٹری فنانس پناہ بلوچ نے سالانہ مالی اخراجات کے بارے میں بریفنگ دی۔ جنرل سیکریٹری ظاہر جان جمالدینی نے ممبران کو بلوچی اکیڈمی کے خلاف سازشوں اور اس کے گرانٹ کی کٹوتی کے حوالے سے کوششوں سے آگاہ کیا۔ بلوچی اکیڈمی کے سابق چیئرمین عبدالواحد بندیگ نے بلوچی ادبی اکیڈمی کے نام سے مشابہہ ایک کاغذی ادارہ بنایا ہے جو کہ صرف ذاتی مفادات اور مراعات حاصل کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔

جنرل باڈی ممبران نے متفقہ طور پر عبدالواحد بندیگ کے اس غیرقانونی ادارے کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ بلوچی اکیڈمی جیسے قومی ادارے کو ذاتی مراعات حاصل کرنے کے لیے استعمال نہ کیا جاسکے۔

اجلاس میں گزشتہ سال کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوئے بلوچی زبان ادب اورثقافت کے فروغ کے لئے مزید اقدامات اٹھانے کے لئے تجاویز پیش کئے گئے جس میں بلوچی رسم الخط کو سائنسی خطوط پر تشکیل دینے بچوں کے لیے کارٹون پر مشتمل ادبی کتابوں کی تیاری غیر ملکی زبانوں کی کلاسیک تخلیقات کو بلوچی زبان میں ترجمہ کرنا بلوچوں کی جغرافیے اور زبان کے لہجوں کا سروے اور تحقیق بلوچی زبان کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے آئی ٹی سیکشن کا قیام عمل میں لانا غیر سندی تحقیق کے فروغ کے لیے اقدامات اٹھانا شامل ہیں۔

بلوچی اکیڈمی کے اجلاس میں درج ذیل قراردادیں متفقہ طور پر منظور کی گئیں بلوچی زبان اور ادب کے فروغ کے لیے سرگرم اداروں سید ہاشمی اکیڈمی گوادر بلوچستان اکیڈمی تربت انسٹیوٹ آف بلوچیا گوادر عزت اکیڈمی پنجگور اور راسکو ادبی دیوان نوشکی جیسے فعال اداروں کے لیے سالانہ گرانٹ مختص کیا جائے یا ان اداروں کے سالانہ گرانٹ میں اضافہ کیاجائے اس کے علاوہ سرکار کاغذی اور ڈمی اداروں جیسے بلوچی ادبی اکیڈمی کو گرانٹ دینے سے گریز کرے جو صرف ذاتی مفادات حاصل کرنے کے لیے بنائی جائیں۔

اجلاس میں کہا گیا کہ بلوچی اکیڈمی کا یہ اجلاس حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ اسکولوں اور تعلیمی اداروں کے موجودہ نصاب کو تبدیل کرے اور نئے نصاب میں بلوچوں کے تاریخ زبان اور ثقافت کونمایاں طریقے شامل کرکے نئی نسل کو حقیقی معلومات فراہم کرے بلوچی اکیڈمی کا یہ اجلاس یہ مطالبہ بھی کرتی ہے کہ بلوچستان ٹیکسٹ بک بورڈ پہلی جماعت سے لے کر دسویں جماعت تک بلوچی زبان میں نصاب کی تشکیل میں بلوچی اکیڈمی کو نمائندگی دے۔

انہوں نے آخر میں کہا کہ ہم وزیراعلی پنجاب کی کوششوں سے ریڈیو پاکستان ملتان سے بلوچی پروگرام کے آغاز کو خوش آئندقراردیتی ہے اور وزارت اطلاعات و نشریات کے حکام سے مطالبہ کرتی ہے کہ کراچی حیدرآباد اور خیر پور ریڈیواسٹیشنوں سے بلوچی پروگرام کا آغاز کے لیے فوری اقدامات اٹھائے جائیں اور کراچی ٹی وی سے بلوچی پروگرام کا آغاز کیا جائے۔