برزکوہی کے آرٹیکل کے تناظر میں
تحریر: کوہ روش بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
گذشتہ روز برزکوہی کے آرٹیکل “میرے قوم کے نوجوان” پڑھنے کا موقع ملا، یقیناً اس آرٹیکل میں نوجوانوں کا اصل چہرہ دِکھانے کی کوشش کی گئی ہے، اس وقت کے پپجی کے شوقین سے لے کر ہوٹل میں بیٹھے فضول کے ایک تجزیہ کار تک سب کے چہرے اس تحریر میں روز روشن کی طرح عیاں تھے۔
جب اس آرٹیکل کو پڑھنے کے بعد کسی سے بھی شیئر کیا گیا تو جواب ایک ہی آیا۔ بہت خوب، بہت اچھا، نوجوانوں کو اس طرح کے آئینے دیکھانے کی ضرورت ہے۔ اگر کوئی ساری رات پپجی پہ گذارتا ہے وہ بھی یہی کہہ رہا تھا اور اگر کوئی سارا ٹائم فضول کی باتیں کرکے ٹائم پاس کرتا ہے وہ بھی یہی کہہ رہا تھا، ہر کوئی اس تحریر کو پڑھتا اور جس لائن میں اس کی کمیوں پہ بات ہورہا ہوتا تو وہ اس لائن کو پڑھنے کے بجائے آگے چلا جاتا ہے اور دوسرے لائن کو پڑھنا شروع کرتا ہے، مطلب ہر کوئی یہی سوچ رہا تھا مجھ میں تو کوئی خامیاں ہی نہیں، باقی سب نوجوان اس طرح کے فضول کاموں میں وقت گذارتے ہیں، میں کیا کرتا ہوں زیادہ سے زیادہ دو گھنٹے کسی ہوٹل میں گذارتا ہوں یا رات کو بس دوستوں کے ساتھ پپجی کھیلتا ہوں یا سادہ سی زندگی جی رہا ہوں، دن کو کام کرتا ہوں رات کو سوتا ہوں، بیوی بچوں کے ساتھ ہاں اگر کسی دن کسی چوکی پہ کسی سر پہرے سے سپاہی کا سامنا ہوا تو کچھ وقت کے لیئے مرغا بنا لیا تو کیا ہوا؟
برزکوہی نے اپنے تحریر میں سب نوجوانوں کا اصل چہرہ دکھانے کوشش کی ہے، مگر کئی چیزوں سے برزکوہی نے بھی چشم پوشی کیا ہے، اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ نوجوان قوموں کے ریڑھ کی ہڑی کی مانند ہوتے ہیں اور اصل معنوں میں اس وقت ہم ریڑھ کی ہڑی سے معزور ہیں، سوال یہ اٹھتا ہے آخر ہم معزور ہوئے کیسے؟ اور کیوں؟ برزکوہی ان تمام چیزوں کے ذمہ داری نوجوانوں کو ٹہراتا ہے کیا ان تمام چیزوں کے ذمہ دار صرف اور صرف نوجوان ہیں؟ کیوں اس چیز سے چشم پوشی کیا گیا ہے کہ آج نوجوان اس طرح آزاد خیال ہوئے ہیں کیوں؟ کیایہ حقیقت نہیں ہے کہ ہمارے پاس نوجوانوں کے لئے کوئی خاطرخواہ پروگرام ہی نہیں ہے؟ جس کو نوجوان دیکھ کر مطمائن ہوجائیں، ایک بات میں یہاں واضح کرتا چلو کہ سب نوجوان نہ ہی ریحان، ازل، وسیم، محراب، منصب، کچکول اور حمل فتح کی طرح ہوتے ہیں اور نا ہی سب نوجوانوں کی سوچ اتنی مظبوط ہوتی ہے جو نہ صرف خود کی رہنمائی کریں بلکہ دوسروں کو بھی راستہ دیکھائیں اگر کوئی اس طرح سوچ رہا ہے کہ یہ نوجوان اس طرح تیار ہوئے اور اتنا بڑا کام کردیا تو باقی نوجوان کیوں اس طرح کے کمزور اور ذہن سے معزور ہیں تو جناب جواب صاف ہے اگر سب کے سب اس طرح ہوتے تو آج تاریخ میں صرف کچھ ہی لوگ زندہ نہیں ہوتے اور انکی تعداد ہزاروں میں نہیں ہوتا۔
ہم نے کھبی یہ سوچا ہے کہ نوجوان تحقیق، تحریر اور تخلیق سے کیوں دور ہیں؟ کبھی ہم نے یہ سوچا ہے کس سے کہاں اور کیسا کام لیا جائے؟ سب دروازے بند کرکے صرف نوجوانوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کروگے کہ بھاڑ میں جائے کاپی قلم بھاڑ میں جائے شعر و شاعری بھاڑ میں جائے گلوکاری اور جہنم میں جائے اسٹیج ڈرامہ اور فلم بنایا اور صرف ایک کلاشنکوف تین میگزین ساتھ لے کر کسی فوجی کانوائے پہ تب تک گولیاں برساتے جاؤ تب کہ جان میں جان ہے اور میگزینوں میں گولیاں ہیں تو اس طرح کے حالت سے گذرنے کے بعد جب تین سال گذر جاتے ہیں تب یہ بھی کہنا ناانصافی ہے ان شاعروں کو کیا ہوا، اور گلوکاراس طرح کے گانے کیوں گا رہے ہیں۔ اگر ان تمام چیزوں کے باوجود کوئی یہی سوچتا ہے یہاں سے سارتر، لینن اور مارکس جیسے لوگ پیدا ہونگے تو وہ خوابوں کی زندگی گذار رہا ہے، اگر آپ کا رابطہ کٹ ہوجائے قوم اور نوجوانوں سے آپ ہی نہ جانتے ہو کہ نوجوان کیا کررہے ہیں اور نوجوان نہیں جانتے ہیں آپ کیا کر رہے ہو تو یہ بھی کہنا ناانصافی ہوگی کہ یہ نوجوان کیوں کسی چوکی پہ آسانی سے مرغابنتے ہیں۔
آج کسی سے بھی پوچھ لو چاہے وہ ورکر ہو یا لیڈر شپ سب کے سب یہی کہہ رہے ہیں کمزوریاں ہیں اور موجود ہیں۔ کیاان کمزرویوں کو نکالنے کے لئے کسی نے بھی خاطرخواہ انتظامات کئے ہیں؟ ان چیزوں کو روک تھام اور کمزرویوں کو ختم کرنے کے لئے کیا کوئی منصوبہ بندی کی گئی ہے؟ اصل بات یہی ہے نہیں کی ہے، نہ ہی کوئی اس جانب غور کرنے کی ضرورت محسوس کر رہے ہیں، ہر کوئی صرف اس بات پہ زرو دے رہا آپ نے کیا کیا ہے اور کسی میں بھی یہ جرت ہے ہی نہیں ہے کہ وہ اپنے آپ سے پوچھ لے میں نے کیا کیا ہے اور مجھے کیا کرلینا چاہیئے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔