براہوئی ادب اوپن گراونڈ – عابد عدید

199

براہوئی ادب اوپن گراونڈ

تحریر: عابد عدید

دی بلوچستان پوسٹ

مجھے ذاتی طور پر یہ تجربہ ہوچکا ہے کہ بہت سے نوشتہ کاران کے نوشت سے ثابت شدہ اور غیر متنازعہ فطری رویے ہمارے موجودہ اجتماعی لاشعور کی اس لا محدودسفرمیں آگے بڑھتے ہوئے، بار بار یہ خوف دامن گیر ھوجاتا ہے کہ جب ایک سچے تخلیق کار کو اپنا نظریہ فن اور تنقیدی عمل خود پیش کرنا پڑیگا تاکہ ایک طرف تو غیر تخلیقی نقادوں کی راہ بندی کی جائے اور جمع زبانی جمع کی من مانیوں سے برائے راست براہوئی ادب کو محفوظ رکھا جاسکے۔

دوسری طرف عام قاری پر ادب کے محاسن و معنی واضح طور پر آشکار کیئے جاسکیں، کیونکہ موجودہ براہوئی ادب کے والی و وارث خاص طور پر مغرب اور رشین رائٹر سےفیس ٹو فیس متاثر ہے، اسکی بڑی مثال یہ ہے کہ ہم میں بے بی آف فلاسفر .غلب .خلیل.جبران.منٹو .مارکس,ماہر نفسیات فرائڈ .فیڈررگ اینگز جیسے القابات تخلص سے,نکھارے ذوق اشخاص موجود ہیں پھر المیہ یہ ہے کہ اب تک اور آج تک کسی بھی براہوئی رائٹرز نے یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ براہوئی ادب کا خارجی اور داخلی اختصار و معیار کیا ہے؟ جس سے یہ پتاچلایا جاسکے کہ جو سانسیں، روح اور زندگی میں جنم لے رہی ہیں، وہ ادب برائے ادب ہے یا ادب برائے زندگی۔

اب ہمارے جنگل کا درو دیوار کچھ اسطرح ہوگیا ہے کہ براہوئی رائٹر جو میٹرپڑھتے ہیں وہ ادب برائے زندگی ھوتی ہے اور جب لکھتے ہیں تب ان کی نوشت امیجری اور کیفیت سے ادب برائے ادب معلوم ھونا شروع ھوتا ہے۔ ہم اکثر اپنے شاعر حضرات سے جوش نشین جذبے کے ساتھ سنتے آرہے ہیں کہ شاعری وہ زندگی ہے جو لفظ کے اندر,بدن میں روح کی مانند موجود ہوتی ہے، لیکن یہاں تک پہنچتے پہنچتے مجھے ایسا کچھ بھی نہیں لگاکہ ہماراشاعر موضوع پر ہے یا معروض پر، وہ کہناکیاچاہتا ہے اسکا فلسفہ داخلی ہے یا خارجی۔ میں توکہتا ہوں کہ موضوع اور معروض تو ایک مجرد خیال ثابت ہوسکتاہے، ہمارا آج کا.شاعر جس گھوڑے پر سوار لوازمات کے پیچھے دوڑ رہا ہے اس کے لیے اج بھی چابک سے زیادہ ذہن کی ضرورت ہے تاکہ آرام سے وہ اپنا جاودانی سفر برقرار رکھ سکے، ردیف قافیہ عروض چابک اور گھوڑے کا جو زہین ہے وہ ہمارا اخلاقی معاشرہ ہے جب تک ہمارے پاس اخلاقی زاویہ ہی نہیں تب ہمارا ادب ڈاریکٹ کیسے کسی معاشرے کو متاثر کرسکتا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اتنے ریاضت کہ باوجود ہمارا شاعر اج بھی انسانی اخلاقی اقتدار تک پہنچ نہ سکا۔

سماجی نظام اور ضمیر یہ وہ مقام ہے جہاں پہنچ کر انسان سماجی نظام کے استحکام کی ضرورت شدت سے محسوس کرتا ہے، ہمارے شاعر اس قدر بد مست اور بدراہ وحشیانہ پن کی چھائیوں کے رقص کو برپا کر رکھے ہوئے ہیں کہ کچھ تخلیق کار شاعر قدامت پسندی سے معمولی درجے کی جاہلانہ حرکت پر اتر آئے ہیں. تنقید کہنا نا مناسب نا انصافی ہوگی بلکہ ہم اسے اعتراضے اغراض و مقاصد کا معنی دینگے، جناب ہم جانبدار ہیں کہ ہمیں غالب اور جون ایلیا سے شدید قسم کا اختلافات ہیں، جب ہم اختلافی سانچے اور ڈھانچے کی نشاندہی کرنے کی کوشش کریں تو ایسا لگا جیسا کھودا پہاڑ نکلا چوہا, یہ سن کر حیرانی ہوئی کہ اج بھی ہمارا شاعر کیلئے غالب شاعر نہیں بلکہ جون ایلیا کی طرح شیعہ لگتاہے۔ اسے کہتے ہیں براہوئی ادب اوپن گراونڈ اب اس شاعر نے دو چار شعر کہنے کے بعد براہیوئی ادب کو آباو اجداد کا میراث سمجھنےلگ گیا، یہ دو چار شعر نوشتہ دیوار ان کے لیے مقولہ بن گئے کہ ہر شاعر اور افسانہ نگار اس ناقابل رشک صورت حال سے خود کو بچانے کیلئے ادیب اور نقاد بن بیٹھتا ہے جوانتقاد اصول ادبیات سے واقف نہیں. اب ایسے ادب تخلیق کرنے والے کو براہوئی ادب میں نقاد کی کیا ضرورت درپیش پڑی ہے، اب جس کی لاٹھی اسکی بھینس۔

کہاں سے ادبی تحریک پیدا کریں کس کباڑی سے وسع الذہن مطالعے اور ادراک و فہم کا قاری خریدا جائے. اب ہمارے ادب کے لیئے نر دیو لالہ بھی کچھ نہیں کرسکتا. کوہ کاف سے اچھے تخلیق کار لاسکتے تو بھی ایک بات بن جاتی بشرطیکہ اسکا بھی روح آزاد ہو جائے. پھر بھی تخلیقت کا جو قحط سالی ہے وہ تخلیقی عمل کا بارش سے کم ھوسکتاہے لیکن ختم نہیں ھوسکتا کیونکہ ہمارا ادب میں آج بھی ایک سلیقہ جو یکساں طور پر نا نثر اور ناہی نظم میں موجود ہے اس آتشے نگار کانام( COMMITMENT) کومٹ منٹ ہے اتفاق سے ایک دن سبب وتد سے ماوراء ایک شاعر نے اتفاقیہ مجھ سے یہ سوال پوچھا. کیا ہے ?یہ کومٹ منٹ اپ بار بار اسی لفظ کو کثیر الاضافی بولتےہیں، اب یہیں سے براہوئی ادب میں اوپن گراونڈ کے معلومات یا نشاندہی ہوسکتا ہے۔

ظاہر ہے ابتک ہمارے شاعروں کو یہ پتہ نہیں چلتا کہ ادب میں اپنی ذات کے بجائے کسی خاص نظریئے سے (اس کے پورے قواعدو قوانین اور متعلقات کے ساتھ مخلصانہ وابستگی اور اس کے مطابق تخلیقی رویئے اختیار کرنے کانام ہی کومٹ منٹ ہے. میں بذات خود کس, نظریئے کا پابند ہوں, میرے ذات کا میری شاعری سےکسی حد تک تعلق ہے بھی یا نہیں کیونکہ کومٹ منٹ ایک ادراکی، شعوری، اختیاری اور مستقل حالت فکر ہے۔ فن کی تخلیق ہمیشہ اخلاص سپردگی اور انہماک کی متقاضی ہوتی ہے۔ مزید ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہم اپنے ادب کامحاکمہ بالعموم ضرورتوں کے بنیاد پر کریں تب بھی ہمارے تمام جدید اصناف تجرباتی ہونگے کیونکہ ہمارے ہاں سب لیٹریسی رٹ برانڈڈہیں۔ برآمد شدہ صنف چند ایک کے علاوہ براہوئی ادب کے لیئے یوزلیس ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا ادب نقل سے نقلی ھونے کی وجہ سے تھرڈ کوالٹی کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہے، سچی بات کہوں اوپن دائرہ کار کی وجہ سے براہوئی ادب میں ایسے رائٹر موجود ہیں جو کہ سالانہ دو یا تین کتابیں ترجمہ یا ایک کتاب نثر یانظم میں لکھ ڈالتے ہیں اس لیئے میں نہایت سچائی سے اس بات کا قائل ھوں کہ کامیابی یا ناکامی ہمارے لکھاری کے لئے کوئی اہمیت یا معنی نہیں رکھتا۔ اب یہی رائٹر براہوئی ادب سے جنگی تحریک میں سچی مثبت اور عالمانہ ضابطہ اخلاق,کے توقعات بھی رکھتاہے غیر سنجیدہ دابستانوں کے پیش لفظ میں یہ بھی دعویٰ کر لیتا ہے کہ ان ہی کتابوں سے ایک دن ہم ادبی تحریک کا آغاز کرینگے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔