ایک فوجی بننے گیا تھا وہ – لیاقت بلوچ

228

ایک فوجی بننے گیا تھا وہ

 تحریر : لیاقت بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

جنگ میں یا محاذ پر ایک فوجی ہر وقت خود کو چوکنا رکھتا ہے، بیدار کرتا ہے اور خود کو بیدار کرنے کیلۓ سب سے پہلے اپنے ضمیر کو جگاتا ہے، جب تک ایک فوجی اپنے ضمیر کو نہیں جگا سکتا تو وہ اپنے اندر کے انسان کو بیدار نہیں کرسکتا کیونکہ وہ ہر چیز سے محروم ہوتا ہے، اس دنیا میں ہر جگہ اگر فوجی ضمیر فروش، سیاست دان غدار بن کر اپنے ملک سے دغابازی کرتے ہیں تو وہ بدترین شخص مانے جاتے ہیں۔

ویسے اگر دیکھیں تو جنگ ایک تباہی ہے، جو نسل کشی اور بد امنی کی اصل وجہ ہے، جنگ ایک ایسی وبا ہے جو صرف انسانی جانوں سے نہیں بلکہ اردگرد کی ہر اس چیز پر اثر کرتی ہے، جس سے انسان کا لینا دینا ہوتا ہے، جنگ میں فوج کو بہادر اور حوصلہ مند ہونا ضروری ہوتا ہے۔ اگر فوجی میدان جنگ میں کوتاہی اور سستی کرے تو وہ بہت بڑی تباہی ہوسکتی ہے، فوجی ہونا آسان نہیں ہے۔ آج کئی ایسے لوگ ہیں جو محاذ پر موجود دشمنوں کو شکست دے رہے ہیں، آج میری نظروں کے سامنے ایک غلام شخص جو اپنی ملک اور مادر وطن کی حفاظت کیلۓ انہی قطاروں میں نظر آنے کی کوشش کررہا ہے، جو کئی سالوں سے جنگ لڑتے آرہے ہیں۔ اسکو پتہ ہے ایک فوجی ہونے سے سخت انکی حکمت عملیوں پر عمل کرنا ہوتا ہے۔ اس چیز کا معلوم تب پڑتا ہے، جب محاذ پر بر سرپیکار ہوں۔

میری نظروں کے سامنے ایک جوانسال اور بہادر جوان اپنا خواب پورا کرنے کیلۓ بارہا خود کو انہی جنگجووں کے صف میں دیکھنا چاہتا ہے جو پہاڑوں کے دامن میں رہ رہے ہیں اور وہیں پر لڑ لڑ کر جام شہادت نوش کرتے ہیں، یہ جوان آج کے بعد اپنی قدمیں جنگی دنیا میں رکھ کر اپنی ملک کی حفاظت کرے گا اور اپنا فرض ادا کرے گا۔ شاید یہ آخری دیدار ہو جس کے بعد اسکو ہم کبھی دیکھ نہ پائیں، جو آج کے بعد ہم سے دور جارہا ہے اسکے جانے کے بعد گھر میں ایک انقلابی قوم پرست کی کچھ کمی سی محسوس ہو گی لیکن وہ کسی وقت مجھ سے دور نہ تھا، ہر وقت اپنے آس پاس محسوس کررہا تھا، کیونکہ اسی نے ہی ہمارے گھر میں انقلاب کا شمع جلایا تھا۔ اسی نے انقلاب کے گیت گاۓ تھے اور چی گویرا لینن اور کئی قوم پرستوں کے تصاویر بھے اپنے پاس رکھتا تھا اور اسکے جانے کے بعد بھی انقلاب کا شمع جل رہا تھا اور جل رہا ہے جو کبھی نہ بجھیگا۔

اسی شخص نے ہم کو غلامی کا احساس دلایا تھا اور اسکی وہی کہی ہوئی بات میرے کانوں میں گونج رہا ہے کہ جب تک ایک سپاہی محاذ پر رہے گا، تب تک ہماری جنگ ظالم سرکار کے خلاف جاری ہوگی، ہم اپنی قومی جنگ کی امید خود کو سمجھتے ہیں، جب تک ہم گھروں سے نہ نکلیں گے تب تک غلامی کی زنجیروں میں رہیں گے اور وطن کے سبز سرزمیں پر بوٹوں کا نشان اور وطن خون سے سے لت پت ہوگا۔

ہم قوم کو یہی بات بتائینگے کہ ہم وہی شخص ہیں، جنہوں نے جنگ میدان میں جام شہادت نوش کی ہے اور کبھی بھی پیچھے نہیں ہٹے ہیں اور اپنے ساتھی کے ساتھ مرچکے ہیں اور دشمن کو ماریں گے اور ان باتوں کے بعد ہم کو الوداع کرکے ہاتھ ہلاتے ہلاتے نکل گیا اور مجھے یہی احساس ہوا کہ جنگ اور قربانی وہی افراد دےسکتے ہیں جو فیصلہ کرسکتے ہیں کہ زندہ رہونگا یا جنگ میں مرونگا، جنگ میں جیت اور ہار ہے اور ہٹلر کہتا ہیکہ ہارنے کے بعد تمھیں کوئی حق نہیں کہ زندہ رہو جنگ میں مرو یا مارو فرانز فینن کہتا ہے قتل سے بچنے کیلۓ قتل کرنا پڑتا ہے خود کو زندہ رکھنے کیلۓ مارنا پڑتا ہے، جنگ ایک مہلک اور خطر ناک چیز ہے جو سب کچھ کچلتی رہتی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔