ایران میں انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے ذمے دار جاوید رحمن کا کہنا ہے کہ ایران میں گذشتہ برس آزادی اظہار کے حق پر قدغن اور شخصی آزادی اور منصفانہ عدالتی کارروائی کے حوالے سے خلاف ورزیوں میں اضافہ دیکھا گیا۔ اس دوران بالغ افراد اور بچوں کے خلاف سزائے موت پر عمل کی 253 کارروائیاں رپورٹ کی گئیں۔
جمعے کے روز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقسیم کی گئی رپورٹ میں جاوید رحمن نے بتایا کہ اگرچہ سزائے موت کی کارروائیاں 2007 کے بعد کم ترین تعداد میں تھیں تاہم ایران میں سزائے موت کا تناسب اب بھی دنیا بھر میں بلند ترین سطح کے حامل ممالک میں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سزائے موت کے تناسب میں واضح کمی 2017 میں انسداد منشیات کے قانون میں ہونے والی ترمیم کا نتیجہ ہے۔ سال 2017 میں منشیات سے متعلق جرائم کے سلسلے میں سزائے موت کی تعداد 231 تھی جو 2018 میں کم از کم 24 تک آ گئی۔
جاوید رحمن نے اس امر پر تشویش کا اظہار کیا کہ ایران میں 80 سے زیادہ جرائم ہیں جن کی سزا موت ہے جب کہ ان میں کئی جرائم ایسے ہیں جو شہری اور سیاسی حقوق سے متعلق بین الاقوامی میثاق (ICCPR) کی رُو سے خطرناک جرائم شمار نہیں ہوتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ذمے دار کے مطابق اپریل 2018 میں ایران میں جن سات قصوروار کم عمر بچوں کو سزائے موت دی گئی ان میں دو کی عمر 17 برس تھی۔ ان پر عصمت دری اور چوری کے الزام عائد کیے گئے تھے اور اس حوالے سے معلوم ہوا ہے کہ دونوں کم عمر افراد کو تشدد کے ذریعے اعتراف جرم پر مجبور کیا گیا۔
جاوید رحمن نے اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کی ہائی کمشنر Michelle Bachelet کے اس بیان کو دہرایا کہ جرم کے مرتکب بچوں کو موت کی سزا دینا “مکمل طور پر ممنوع ہے اور اسے فوری طور پر ختم کیا جانا چاہیے”۔
مزید برآں جاوید رحمن نے دہری شہریت کے حامل ایرانیوں اور غیر ملکی افراد کی جبری گرفتاری اور حراست، ان کے ساتھ برے برتاؤ اور انہیں طبی دیکھ بھال سے محروم کیے جانے پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے اندازہ لگاتے ہوئے بتایا کہ اس طرح کے 30 کیس موجود ہیں۔