اپیل: تلاش برائے گمشدہ
تحریر – حیراف بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
کچھ دنوں سے میرا ایک دوست مجھ سے روٹ گیا ہے. وه مجھ سے بات نہیں کرتا، وه میرے پاس بهی نہیں آتا، میں اُسے منانا چاہتا ہوں مگر وه ہے کہ میرے سامنے تک نہیں آتا، دن کے اجالوں میں اُسے ڈهونڈنے کی کوشش کرتا ہوں پر وه نہیں ملتا، رات کو دیر تک جاگتا ہوں پر اُسے دیکھ نہیں پاتا، لوگ مجھ سے کہتے ہیں کہ اُسے آپنے اندر تلاش کرو میں نے وه بهی کیا مگر مجهے نہیں ملا۔ شاید میری ہی غلطی ہے، میں نے ہی اُسے ناراض کردیا ہے، میں ہی هر وقت اُس کا مذاق اُڑاتا تها، میں ہی اُسے کبهی سمجھ نہیں پایا یا سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔
وه گهنٹوں مجھ سے بحث کرتا غلط اور صحیح کی نشاندہی کرتا مگر میں ہی تها کہ جسے غلط اور صحیح سے کوئی سروکار نہیں تها. بس ہمیشہ وه کرتا تها جو میرے لئے آسان ہوتا، میرے ان حرکتوں سے اُسے کافی دُکھ ہوتا مگر مجهے اُسکی کوئی پرواه ہی نہیں تها اور اب؟ اب وه مجهے چهوڑ کے چلا گیا۔
پتہ نہیں کہاں گیا ہے؟ مجهے اُسکی بہت فکر ہوتی ہے. اس خونخوار معاشرے میں پتہ نہیں وه کس حال میں ہے. معاشرے کے ان بگڑے ہوئے باسیوں میں اُس معصوم کا زنده رہنا ایک مشکل اور پر کهٹن امر ہے. پتہ نہیں وه زنده ہے بهی کہ نہیں؟ روز روز کے ان دهماکوں میں کہیں وه بهی تو نا چل بسا ہے؟ یا کہیں وه زمینی خُداؤں کے ہاتهوں گرفتاری بعد لاپتہ تو نہیں ہوا؟ الله نا کرے اگر اُسکی مسخ شده لاش مجهے مِل گئی تو میرا کیا ہوگا؟ میری تو دُنیا ہی اُجڑ جائیگی، میں تو اُسکے بِناء انسان کہلانے کے لائق بهی نہیں، اُسکے بغیر تو شاید میں جی بهی لوں مگر اُسکی باتوں اور اُسکی رہنمائی کے بغیر میں میں تو ایک جانور ہی ٹہرونگا اس سے زیاده کچھ نہیں کیونکہ مهجے انسان ہونے کا وقار تو وہی ہی آپنے غلط اور سہی والے فارمولے کے بناء پر بخشتا تھا.
آج عید کا دوسرا دن ہے، سب لوگ سُنتِ ابراهیمی میں مصروف ہیں اور ایک دوسرے سے گلے مل رہے ہیں ایک دوسرے سے حق بخشی میں مصروف ہیں.
میں بھی اُسے گلے ملنا چاہتا ہوں، اپنی غلطیوں کی معافی مانگنا چاہتا ہوں، اُسے منانا چاہتا ہوں، پر وه سامنے نہیں آرہا میں اُسے دیکھ نہیں پارہا، پتہ ہے وه مجھ سے کچھ نہیں مانگتا تها نا ہی کسی چیز کی ڈیمانڈ کرتا، وه بس یہ چاہتا تها کہ میں ہمیشہ سچ کا ساتھ دو ظلم کو برداشت نہ کرو چاہے پهر وه ظلم آپ کا باپ کا بیٹا ہی کیوں نا کر رہا ہو، مگر میں یہ باتیں سمجھنے سے قاصر تها، یا یوں کہیں کہ میں نے کبهی اپنے ساتهی اپنے دوست اپنے ہمسفر کی باتوں پہ کان نا دهره۔
آج اُس سے بچهڑ کے احساس ہوتا ہے میں تو میں ہوں ہی نہیں، جو تها میری ذات میں بس وہی ہی تو تها، دوستوں میں اپنے دوست کو کهونا نہیں چاہتا، میں اُسکے بنا جی بهی نہیں سکتا یا یوں کہوں کہ میں انسان کی طرح جینا چاہتا ہوں، کسی جانور کی طرح بالکل بهی نہیں۔
بس قارئین سے ایک ہی درخواست ہے کہ اگر آپ اس نا چیز کی تحریر پڑھ رہے ہیں تو اِس نا چیز کی گُمشده دوست کی تلاش میں مدد فرمائیں.
ارے میں تو بهول ہی گیا آپ کیسے تلاش کرینگے اُسے؟ میں نے ابهی تک تو اُسکا نام بهی نہیں بتایا، اسکا نام ضمیر ہے. ہاں ضمیر، صرف ضمیر، نا ہی والد کا نام، نا ہی کوئی مذہب، نا ہی کوئی قوم سے تعلق ہے اُسکا، بس یہ سمجهو کہ ضمیر یتیم ہے، وه انسان تو نہیں مگر انسانیت سے اُسکا بہت گہرا تعلق ہے، اسکے سامنے جب بهی کوئی بات رکهو تو وه اپنا فیصلہ قوم ذات پات دین و دهرم سب کو بالائے طاق رکھ کر سُناتا ہے۔
یہ اُسکی عادت ہے یا فطرت، سوچ ہے یا نظریہ، نہیں پتہ مگر یہی بات اسکے وجود کو ثابت کرتی ہے کیونکہ بظاہر تو یہ صاحب نظر نہیں آتا مگر ہوتا ہے سب انسانوں کے اندر ہوتا ہے۔ مگر کچھ لوگ اسکے قدر وُ قیمت سے نا واقفیت کے وجہ سے اسے کهو دیتے ہیں اور اس معصوم شخص کو معاشرے کے رحم وُ کرم پہ چهوڑ دیتے ہیں بلکل میری طرح جہاں اسکا زنده رہنا بہت ہی مشکل ہے.
آخر میں بس اتنا ہی کہنا چاہونگا کہ ضمیر نامی اس شخص کو آپ آپنا بهی دوست اور ساتهی سمجھ سکتے ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔