انسانی حقوق کے ادارے بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا نوٹس لیں – ڈاکٹر اللہ نظر

204

بلوچ رہنما ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پہ اپنے ایک ٹویٹ میں انسانی حقوق کے اداروں سے بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے حوالے سے نوٹس لینے کی اپیل کی ۔

بلوچ رہنما نے کہا کہ عالمی تنظمیں پاکستان کے خلاف کارروائی کریں۔

ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ نے مزید کہا کہ پاکستانی فورسز کی جانب سے کیچ آبسر سے پانچ طالب علموں پرویز ولد ایوب، شریف ولد سلیمان، زید ولد ولید حفیظ ہیر اور خلیل ولد پھلین کا اغواء انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔

واضح رہے بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا سلسلہ سنگین صورتحال اختیار کرچکا ہے بلوچ سیاسی و سماجی تنظیموں کے مطابق ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو لاپتہ کیا جاچکا ہے جبکہ ان لاپتہ افراد میں سے سینکڑوں افراد کی مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوئی ہے۔

گذشتہ روز بلوچ لبریشن آرمی کے رہنماء بشیر زیب بلوچ نے اپنے ایک پیغام میں کہا کہ کشمیر پر پاکستانی واویلا ایک انتہائی منافقانہ رویہ ہے، پاکستانی فوج خود بلوچستان میں انسانی حقوق کے پامالیوں میں ملوث ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان ستر سالوں سے بلوچستان پر قبضہ جما کر بلوچوں کی آزادی کو سلب کیا ہے ۔

بی ایل اے رہنماء کا بیان ایسے وقت میں آیا ہے جب پاکستان میں حکومت سمیت فوج اور تمام سرکاری ادارے کشمیر پر بھارتی پارلیمنٹ کے پالیسی پر تنقید کررہے ہیں۔

دریں اثنا بلوچستان لبریشن فرنٹ کے رہنما اختر ندیم بلوچ نے بھی سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ ٹویٹر پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ 70 سال پرانا خون چوسنے والا ڈرامہ جس کا نام پاکستان رکھا گیا ہے، اب اسے اپنے انجام کو پہنچنا چاہیئے۔ پاکستان نے دہشت گردی کی حمایت اور خطے کے لوگوں کو دھوکا دیکر عالمی سطح پر اپنے لئے دہشت گردی کا نام روشن کیا ہے۔ آزاد بلوچستان خطے اور عالمی امن کی خوشحالی کی ضمانت ہوگا۔

یاد رہے بلوچ مسلح تنظیموں اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے ماضی میں یہ دعویٰ کیا جاتا رہا ہے کہ پاکستانی فوج بلوچستان میں فوجی آپریشنوں کے دوران عام آبادیوں کو نشانہ بناکر جنگی قوانین کی خلاف ورزی کرتا رہا ہے۔

دوسری جانب بلوچستان کے مختلف علاقوں کئی سالوں سے جبری طور پر لاپتہ کئی افراد بازیاب ہوچکے ہیں تاہم بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن، وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز سمیت دیگر انسانی حقوق کے تنظیموں اور جماعتوں کا کہنا ہے کہ جبری گمشدگیوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے جہاں ایک طرف کچھ لوگوں کو رہا کیا جارہا ہے تو دوسری جانب اس سے زیادہ تعداد میں لوگوں کو لاپتہ کیا جارہا ہے۔