امیلکار کیبرال | جدوجہد اور افکار | قسط 3 – مشتاق علی شان

252

دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ

امیلکار کیبرال | جدوجہد اور افکار | قسط 3
مصنف: مشتاق علی شان

سفید سامراج کے سیاہ جرائم | حصہ دوئم

یہ تو خیر تھے ہی مذہب کے ٹھیکیدار جن سے اور امید بھی کیا کی جا سکتی تھی مگر حیرت ہے یورپ کے ان مفکرین اور دانشوروں کی ایک بڑی تعداد پر جو اس مسئلے پر لب بستہ نہیں رہے بلکہ انھوں نے اپنی ذہنی پستی اور اخلاقی گراوٹ کے ایسے ایسے نادر نمونے چھوڑے ہیں جو انسانیت کے رخسار پر طمانچوں سے کم نہیں چنانچہ ریڈ یارڈ کپلنگ جیسا سفید فام نسل پرست ”سیاہ فام اور رنگ دار اقوام کو سفید فام انسانوں کے کاندھوں کا بوجھ“ کہا کرتا تھا۔ یہ وہی بدنام زمانہ ریڈ یارڈ کپنلگ تھا جو محکوم اقوام کو ”آدھے شیطان اور آدھے بچے“ (half devil and half child) کہا کرتا تھا۔ میکڈفے برسرِ عام یہ کہتا پھرتا تھا کہ”غلامی جمہوریت کے ایوان کا سنگِ بنیاد ہے کیونکہ میں اس عقیدے کو فالتو و بیکار سمجھتا ہوں کہ تمام انسان برابر ہیں۔“1788میں معروف یورپی شاعر ولیم کوپر نے غلامی کی متعلق نظم میں اپنے ذہنی افلاس کا ثبوت کچھ اس طرح فراہم کیا ہے:

”میں تسلیم کرتا ہوں کہ میں غلاموں کی خریداری پر اداس ہو جاتا ہوں
اور میں جانتا ہوں کہ ان کی خرید و فروخت کرنے والے بد معاش ہیں
میں غلاموں کی سختیوں، اذیتوں اور تکالیف کے بارے میں جو کچھ سنتا ہوں
اس سے ایک پتھر سے بھی رحم و تاسف کے جذبات پھوٹ پڑتے ہیں
مجھے ان پر رحم آتا ہے مگر میں خاموش ہو جاتا ہوں
کیونکہ ہم آخر کس طرح بغیر شکر اور رم کے گزارہ کریں گے۔“

برطانوی مصنف ڈاکٹر رابرٹ فاکس نے 1850 میں ”انسانی نسلیں“ نامی کتاب میں لکھا کہ ”ایک سیاہ فام، ہوٹن ٹن یا کافر کی کسے پرواہ ہے؟ یہ مسائل پیدا کرنے والی نسلیں ہیں لہٰذا انھیں جتنی جلدی راستے سے ہٹا دیا جائے اتنا ہی بہتر ہے۔“ اپنی گوری چمڑی کا اسیر رابرٹ فاکس مزید لکھتا ہے کہ ”چونکہ سیاہ فام اقوام جانوروں کی مانند اپنے وجود کو ایک چھوٹے سے دائرے میں محدود رکھتے ہیں اس لیے اگر انھیں تباہ کر دیا جائے تو اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔“

اہلِ یورپ کے یہ بیمار خیالات بعد میں اس نسل پرستی پر منتج ہوئے جس نے جنوبی افریقہ، نمیبیا اور روڈیشیا وغیرہ سے لیکر یورپ وامریکا تک میں سیاہ فام اور رنگدار انسانوں کے ساتھ جو کچھ کیا وہ انسانی تاریخ کا سلگتا ہوا باب ہے۔ انھوں نے علمِ بشریات، نظریہ ارتقا اور دیگر سائنسی علوم کو بھی اپنی نسل پرستی کا آلہ بنانے میں عار محسوس نہیں کی۔ یہی وجہ ہے کہ فاشزم کے خالق بھی یہی سفید سامراجی ٹھہرے اور انھوں نے ہٹلر، مسولینی اور فرانکو جیسے درندوں کو جنم دیا۔

جہاں تک غلامی کو غیر قانونی قرار دینے اوراس کا خاتمہ کر دینے کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں بھی یورپی سرمایہ داروں کا خبث باطن کوئی ڈھکا چھپا نہیں ہے، لکھنے والوں نے تو یہاں تک لکھ دیا کہ اس کے پسِ پشت دراصل اہلِ یورپ بالخصوص انگریزوں کی انسانی ہمدردی کا جذبہ کار فرما تھا جنھوں نے سب سے پہلے 1787 میں غلامی کے خاتمے کے لیے ایک انجمن Quakers قائم کی تھی۔ اس زمانے میں برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی نے ”تھامس کلارکسن“ کو غلامی کے موضوع پر بہترین مضمون لکھنے پر انعام سے بھی نوازا۔ 1833میں برطانیہ میں ایکٹ آف ایمینسی پیشن(Emancipation)کی رو سے غلامی کا خاتمہ کر دیا گیا۔ باقی جگہوں پر 1865 جبکہ برازیل میں غلامی کا خاتمہ 1888میں ہوا۔

دراصل انسانی غلامی ہو یا اس کا خاتمہ، ان دونوں کی وجہ سفید سامراج کے معاشی مفادات ہی تھے۔ جب تک غلامی انگریزوں کے معاشی مفادات پورے کرتی رہی اس وقت تک انھوں نے اس سے خوب خوب فائدہ اٹھایا مگر جب یہی انگریز اپنی صنعتی ترقی کی بدولت عالمی سامراجیت کے سر خیل بنے اور ان کی خوشحالی کا درومدار اب غلاموں پر نہیں رہا بلکہ ایشیا و افریقہ کی منڈیاں اور ذرائع ان کے لیے زیادہ پرکشش ہو گئے تو وہ غلامی کے خاتمے کی طرف مائل ہوئے۔ انگریزوں نے دیگر یورپی سامراجی اقوام پرتگال، فرانس، اسپین وغیرہ جن کی شکر کی سستی پیداوار اور تجارت غلاموں کی رہینِ منت تھی اس کا زور کم کرنے اور اپنی شکر کی منڈیاں بچانے کے لیے غلامی کے خاتمے کا ڈول ڈالا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خود پرتگیزیوں نے برطانیہ کی ان کوششوں کی مذمت میں چیخ چیخ کر آسمان سر پر اٹھا لیا کہ ”غلامی کے خاتمے کی تحریک کے پیچھے برطانیہ کے سامراجی مفادات ہیں۔ وہ اپنی ہندوستانی شکر کی پیداوار بڑھانے اور اس کے لیے نئی منڈیاں تلاش کرنے کی غرض سے ایسے ممالک کو جو شکر پیدا کرتے ہیں، ختم کرنا چاہتے ہیں اور غلامی کے خاتمے کے بعد برطانیہ سمندروں بالخصوص افریقی ساحلوں کو اپنے قابو میں لانے کا خواہش مند ہے۔“ غلامی کے خاتمے کا ایک بڑا سبب غلاموں کی وہ مسلسل بغاوتیں بھی تھیں جن کا تاریخ سے ذکر ہی گول کر دیا گیا ہے۔ بہرحال غلامی کے خاتمے کی پیچھے نئے مفادات کارفرما تھے ورنہ دیکھا جائے تو غلامی کے باقاعدہ خاتمے کے بعد بھی ان سفید فام اقوام نے ان کے ساتھ غلاموں کا سا سلوک ہی روا رکھا اور اس کا مظاہرہ وہ آج بھی اپنے ممالک میں سیاہ فام اور رنگدار محنت کشوں کے ساتھ کرتے نظر آتے ہیں۔

یہاں اس امر کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ جب انگریزوں نے ان غلاموں کے ذریعے ایک نئی دنیا (ولایاتِ متحدہ امریکا) آباد کرلی جس کی بنیادیں افریقی غلاموں کی ہڈیوں پر رکھی گئی تو پھر ان کی ایک بڑی تعداد کو اس ”جنت“ سے مستفید ہونے کی بجائے 1920 میں افریقی ملک لائبیریا میں دھکیل دیا گیا اور طرفہ تماشا یہ کہ اسے ”آزادی“ کا نام دیا گیا۔

افریقہ کے حوالے سے سفید سامراج کا ایک اور بڑا جرم یہ ہے کہ انھوں نے اپنی وحشیانہ لوٹ مار کے لیے اس خطے کے حصے بخرے کر کے اسے آپس میں تقسیم کیا۔ اس عمل کے نتیجے میں یا تو ایسے لوگوں زبردستی آپس میں ملا دیا گیا جن کے درمیان کوئی باہمی ثقافت یا تاریخی تعلق نہیں تھا یا پھر اس کے بالکل برعکس ان کو تقسیم اور ثقافتی طور پر توڑ پھوڑ دیا گیا۔

سفید فام مغربی مورخ تو یہاں تک لکھ گئے کہ یورپی اقوام کی افریقہ آمد سے قبل اس خطے کی کوئی تاریخ اور ماضی نہ تھا۔لیکن حقیقت کیا ہے؟ اس کو ”سولومن انکوئی“ نے اپنے مضمون ”افریقہ کی لوٹ کھسوٹ“ میں یوں بیان کیا ہے کہ”افریقہ ایک براعظم ہے جہاں پر مختلف اقوام اور ثقافتیں پروان چڑھیں اور افریقہ کے لوگوں نے اب تک یکساں ثقافت یا ترقی حاصل کو حاصل نہیں کیا ہے۔ جب ابتدا میں یورپی افریقہ میں آئے تو انھیں وہاں مختلف درجوں کی تہذیبیں ملیں۔ اُس وقت کچھ قبائل غذا کو جمع کرنے کی اسٹیج پر تھے، کچھ زراعتی معاشرے تھے اور کچھ مویشیوں کو پالنے والے۔ اس براعظم میں کئی تہذیبیں پیدا ہوئیں اور ختم ہو گئیں، یورپی اقوام کی آمد سے بہت پہلے یہاں سون گائی، گھانا، بینن، آکزم، زمباوے، موروئی اور نوبیا کی تہذیبیں عروج پر پہنچ کر ختم ہو گئیں تھیں“۔

دراصل سفید سامراج کی آمد سے بہت ہی پہلے افریقی باشندے فطرت کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کرنے سے بخوبی واقف تھے۔ وہ یا تو شکار اور غذا جمع کر کے گزر بسر کیا کرتے تھے یا پھر زراعت سے وابستہ تھے۔ زراعت سے افریقی بخوبی واقف تھے اور وہ کھیتوں پر ہل چلانے، کھاد دینے سے لے کر موسم کے حساب سے کاشت کرنے تک کا علم جانتے تھے اور انھوں نے آب پاشی کا نظام بھی وضح کر رکھا تھا۔

سولومن انکوئی لکھتے ہیں کہ ”وہ (افریقی) صرف غذا کی پیداوار ہی پر توجہ نہیں دے رہے تھے بلکہ ایک اعلیٰ ثقافت بھی تخلیق کر رہے تھے۔ جن میں آرٹ، مجسمہ سازی، موسیقی، فنِ تعمیر اور فولاد و شیشہ کا کام قابلِ ذکر ہے۔ افریقہ میں قدیم آثاروں سے جو آرٹ کے نمونے دستیاب ہوئے ہیں وہ افریقی تہذیب کی عظمت اور بڑائی کے زندہ شہکار ہیں۔ علمی میدان میں بھی افریقی ترقی کر رہے تھے اور وہ اپنی زبانوں کے رسم الخط بنا رہے تھے یا اپنے ہمسایوں کے رسم الخط اختیار کر رہے تھے۔ افریقی ممالک کے درمیان باہمی تجارتی رشتے تھے جو مصر، مراکش، الجزائر، تیونس اور لیبیا تک تجارتی سامان لیکر جاتے تھے۔“ یعنی کہ سفید سامراج کی آمد سے قبل افریقی خطہ ایک فطری ارتقائی عمل میں تھا جسے انھوں نے درہم برہم کر کے رکھ دیا۔ انھوں نے افریقہ میں ایسی فصلوں کو متعارف کیا جو یورپی منڈیوں کی ضرورت تھی۔ اس سارے عمل کے نتیجے میں یورپی اقوام نے افریقہ کی معیشت کو اپنے مفادات سے جوڑ کر اسے تباہ کر دیا جس کا خمیازہ افریقہ کے عوام آج تک بھگت رہے ہیں۔

ایک افریقی شاعر یوسٹاپی پروڈونسو کے لفظوں میں
اسٹیڈیم۔۔۔۔۔۔ چارلس ڈیگال۔۔۔۔۔۔۔اینی پلیون
سڑکیں۔۔۔۔۔۔۔ڈی لورم۔۔۔۔۔۔۔۔۔وکٹر بلاٹ
کیسی اچھی تقدیر ہے ان غیر فانی لوگوں کی
اچھے اور عظیم لوگ
بچّے، جب تم اسکول جاتے ہو تو وہ تمھیں کیا پڑھاتے ہیں!
یہ دور دراز کے نام!!
تمھارے ملک کے! تمھاری روحوں کے باطن کے۔۔۔۔ تمھارے ماضی کے!
اچھا تو پھر ہمارے سیاہ فام ہیرو کہاں ہیں!
بہان زِن۔۔۔۔گیورا۔۔۔۔ٹافہ
ہوش کرو میرے ذمہ دار رہنماؤ!
ہماری سڑکوں اور اسٹیڈیموں کو نیا بپتسمہ دو
اس نوآبادیاتی لعنت کو ختم کرو
اپبے بہادر جنگجوؤں کی توقیر کرو
پیرس میں بہان زِن کے نام پر کوئی چوک نہیں
مارسلیز میں گیورا کے نام کی کوئی سڑک نہیں
نائس میں ٹافہ کے نام پر کوئی اسٹیڈیم نہیں
ہوش کرو اور اپنی آزادی کو معنی دو
ان ناموں کو ترک کردو
جن میں کوئی بازگشت نہیں۔۔۔۔۔درست ہے کہ
ڈیگال، پلیون اور بلاٹ اچھے اور بڑے آدمی تھے
لیکن ان کے دامن پر سیاہ رات کے دھبے ہیں
اُس سیاہ رات کے جو ظلم اور دُکھ سے عبارت تھی
جس کے لمحے گولیوں سے آلودہ تھے
اور جس میں بچوں کے آنسوؤں میں ملے ہوئے خون کے قطرے
بندوق کی مکھی کا کام دیتے تھے
اپنی سڑکوں اوراسٹیڈیموں کو نیا بپتسمہ دو
تاکہ آزادی اور وقار کے سورج کی روشنی میں زندہ نام جگمگائیں
زندہ نام!
جو جرات اور شرافت سے لبریز ہیں
نام۔۔۔۔۔۔!
جن کی جڑیں ہماری تہذیب اور تمدن میں ہیں
اپنی ماضی کی راکھ سے
اور نامور لوگوں میں سے وہ نام ڈھونڈو اور انھیں روشنی دو
جو ہمارے اپنے ہیں
اس نوآبادیاتی لعنت سے نجات پاؤ
اور عظمت کے تصور کو نیا بپتسمہ دو


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔