امیلکار کیبرال | جدوجہد اور افکار | قسط 1 – مشتاق علی شان

466

دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ

امیلکار کیبرال | جدوجہد اور افکار | قسط 1
مصنف: مشتاق علی شان

پیش لفظ | افریقہ پر سفید سامراج کی یلغار

پیش لفظ

افریقہ سے میرا پہلا تعارف نیلسن منڈیلا کی شخصیت تھی۔ میں میڑک کا طالب علم تھا جب میں نے عباس احمد آزاد کی کتاب ”نیلسن منڈیلا“ پڑھی تھی۔یہ وہ زمانہ تھا جب جنوبی افریقہ کی سفید فام نسل پرست حکومت کے خلاف ان کی طویل جدوجہد کامیابی سے ہمکنار ہو چکی تھی لیکن یہ ایک ایسا دور بھی تھا جب سوویت یونین اور مشرقی یورپ میں اشتراکی حکومتوں کے انہدام سے اٹھنے والی گرد نے ہر شے کو ڈھانپ رکھا تھا۔سو نمیبیا کی طرح جنوبی افریقہ کے عوام کی قومی آزادی کی تحریک بھی اشتراکیت کے قالب میں نہ ڈھل سکی۔البتہ نیلسن منڈیلا کا نام اور کام تاریخ میں امر ہو گیا۔اس کے بعدمعمر قذافی کی”سبز کتاب“ میرے مطالعے میں آئی جس کا اردو ترجمہ میرے استاد ڈاکٹر خیال امروہوی نے کیا تھا۔بورژوا جمہوریت کی طرف آج بھی میرا مخصوص رویہ شاید اسی کتاب کی دین ہے۔ تاریخ سے دلچسپی کے باعث افریقہ کے بارے میں آنے والے دنوں میں مَیں نے بہت کچھ پڑھ ڈالا۔لیبیا کے صحرائی شیرعمر مختار،گھانا کے انقلابی رہنما کوامے، نکرومہ،کانگو کے وطن پرست انقلابی شہید پیٹرس لوممبا، ایتھوپیا کے منجستو ہیل مریام، نمیبیا کے سام نجومااور سواپو،الجزائر کے ’نیشنل لبریشن فرنٹ، فرانزفینن، احمد بین بیلا، فرحت عباس،جمہوریہ گنی کے احمد سیکو طورے، تنزانیہ کے جیولس نائریرے،انگولا کے ڈاکٹر نیتو اورMPLA، موزمبیق کے ایڈورڈو مونڈلین، میشل سیمورا اور فری لیمو،گنی بساؤ کے ایملکار کیبرال اور PAIGC،روڈیشیا (موجودہ زمبابوے) کے رابرٹ موگابے،برکنیا فاسو کے جواں مرگ انقلابی تھامس سنکارا، افریقہ کی اور بہت سی قومی آزادی اور اشتراکیت کی تحریکیں اور ان کے انقلابی رہنما دنیا بھر کی انقلابی تحریکوں اور رہنماؤں کی طرح میرے شعور کا حصہ بن گئے۔

یہ محض اتفاق تھا کہ جب 2002میں مجھے مزدوری کی غرض سے سعودی عرب جانا پڑا تو میرا پہلا واسطہ ہی افریقی محنت کشوں سے پڑ ا۔ یہ شمالی افریقہ بالخصوص سوڈان اور مصر کے محنت کش ہی تھے جن کے ساتھ رہ کر میں نے عربی زبان سیکھی۔ سعودی عرب میں آٹھ سال مزدوری کرنے کے دوران میری زیادہ تر دوستیاں افریقی محنت کشوں سے ہی رہیں۔ میں نے افریقی باشندوں کو عمومی طور پر حلیم الطبع، جفا کش اور انتہائی بہادر پایا۔ ان میں عام لوگ بھی تھے، سیاسی اور مذہبی رحجانات کے حامل بھی تو قوم پرست، سیکولر اور سوشلسٹ بھی۔ میں نے شاید افریقہ کو کتابوں میں اتنا نہیں پڑھا جتنا اپنے افریقی دوستوں سے افریقہ، اس کے رہنماؤں اور تحریکوں کے بارے میں سنا ہے اوران سے گھنٹوں بحث و مباحثہ اور تبادلہ خیال کیا ہے۔ میرا ایک سوڈانی دوست عصام الدراج تو گویا افریقہ کا انسائیکلو پیڈیا تھا۔اسے اردو سیکھنے کا بہت شوق تھا وہ کوئی پانچ سال تک سعودی میں مقیم رہا پھر مزدوری کے لیے لیبیا چلا گیا۔البتہ اس عرصے میں وہ ہماری ”لیاری اسٹائل“ کی اردو ضرور سیکھ چکا تھا۔ میں نے سیکولر اور پان افریقی نیشنل ازم کے رحجان کے حامل عصام الدراج سے بہت کچھ سیکھا۔اسی طرح ایتھوپیا سے تعلق رکھنے والاایک محنت کش ساتھی کامریڈ عبداللہ تھاجس سے مجھے نہ صرف ایتھوپیا کی تاریخ،وہاں کی کمیونسٹ تحریک بلکہ افریقی انقلابی تحریکوں کے بارے میں بھی بہت کچھ معلوم ہوا۔ کامریڈ عبداللہ کے والد اور خاندان کے بہت سے لوگوں کا تعلق ایتھوپیا کی کمیونسٹ پارٹی سے تھا۔ ایتھوپیا کی کمیونسٹ پارٹی سترہ سال تک برسرِ اقتدار رہی لیکن وہاں کے کامریڈوں نے اپنے لیے کسی قسم کا ”مال“ نہیں بنایا لیکن صرف ایتھوپیا کے کامریڈوں پر ہی کیا موقوف کہ دنیا بھر انقلابیوں نے ایسی ہی مثالیں قائم کی ہیں۔سوشلسٹ ایتھوپیا کے سابق صدر کامریڈ منجستو ہیل مریام جو زمبابوے میں جلا وطنی کی زندگی گزر رہے ہیں ان کے سارے بچے ملازمتیں کرتے ہیں جبکہ ان کی ایک بیٹی ہرارے کے ایک اسپتال میں ڈاکٹر ہیں۔سوشلسٹ حکومت کے خاتمے کے بعد ایتھوپیا کے کمیونسٹوں نے سامراجی ایجنٹ میلس زیناوی کے عہد میں انتہائی عزم اور حوصلے سے صعوبتوں کا سامنا کیا اور آج بھی کر رہے ہیں۔کامریڈ عبداللہ جو اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا اور پڑھا لکھا نوجوان تھا، اکثر ایتھوپیائی محنت کشوں کی طرح غیر قانونی طور پر ایتھوپیا سے اریٹیریا اور پھر ایک لانچ کے ذریعے سعودی کے شہر جدہ میں داخل ہوا تھا،جہاں سے وہ پا پیادہ ”تہامہ“ کا ساڈھے چھ سات سو کلو میٹر پہاڑی سلسلہ عبور کر کے سعودی کے صوبے ”عسیر“ پہنچا تھا اور ”ابہا“ شہر کے مضافات میں محنت مزدوری کرتا تھا۔ افسوس کہ ان دونوں دوستوں سے میرا رابطہ نہیں رہا۔ایک خاص بات جو میں نے افریقی دوستوں میں دیکھی وہ یہ کہ مختلف نظریات اور خیالات کا حامل ہونے کے باوجود وہ امریکی سامراج کو اپنی موجودہ بربادی کا ذمہ دار سمجھتے تھے۔ میں نے عمومی طور پر افریقیوں کو سامراج مخالف ہی پایا۔ شاید اسی کی سزا کے طور پر آج افریقہ بھر پر مذہبی جنونیوں کو مسلط کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔

بہر کیف بات لمبی ہوگئی۔ دنیا بھر کے انقلابات اور انقلابی رہنماؤں کی طرح افریقہ کے بارے میں لکھنے کی مجھے ہمیشہ خواہش رہی ہے اوریہ کتاب اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ یہ کتاب نہ تو مکمل افریقہ ہے اور نہ ہی مکمل امیلکار کیبرال اور گنی بساؤ۔ یہ کتاب انقلابی افریقہ کا ایک رخ بلکہ ایک تعارف ہے،اسے مکمل کسی بھی طور نہیں کہا جاسکتا۔اس میں کئی غلطیاں اور خامیاں ہوں گی جس کا سبب میری علمی بے بضاعتی ہے۔البتہ یہ کتاب محض میرے مطالعے کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ اس میں اس علم کا بھی اتنا ہی حصہ ہے جو مجھے اپنے افریقی محنت کش ساتھیوں کی صحبت میں حاصل ہوا۔ یہ کتاب کوئی غیر جانبدارانہ نقطہ نظر سے بھی نہیں لکھی گئی ہے نہ ہی مجھے اس کا دعویٰ ہے۔ کیوں کہ میں غیر جانبداری پر یقین نہیں رکھتا اور نہ ہی طبقاتی دنیامیں غیر جانبداری کا کوئی وجود ہے۔ جو لوگ غیر جانبداری کی بات کرتے ہیں وہ جھوٹ بولتے ہیں کیوں کہ جانبدای طبقاتی دنیا کا وصف ہے یہاں ہر طبقہ اور گروہ اپنے طبقاتی مفادات کے پیش نظر عین جانبدار ہے سو میں محنت کش عوام اور مظلوم قوموں کے حوالے سے بجا طور پرجانبدار ہوں۔ مجھے اندازہ ہے کہ کتاب پڑھتے ہوئے بعض مقامات پر قارئین کو تحریر کی سختی، کرختگی اور تلخی کھلے گی اور انھیں یوں محسوس ہوگا کہ میں نے فریق بن کر یہ کتاب لکھی ہے۔ہاں یہ درست ہے کیوں کہ پانچ صدیوں تک سفید سامراج نے افریقہ کا جو حشر کیا ہے اور نصف صدی سے وہ جو کر رہا ہے اس پر وارد ہونے کے بعد کسے ”خامہ فرسائی‘‘کا یارا رہے گا۔سو میں پھر اعتراف کرتا ہوں کہ محنت کش طبقے سے تعلق اور اشتراکی ہونے کے ناتےٍ نہ صرف امیلکار کیبرال اور گنی بساؤ بلکہ دنیا بھر کی انقلابی تحریکوں، اس کے شہیدوں اور قائدین کے حوالے سے میں خود کو فریق ہی سمجھتا ہوں۔ دوسری عالمگیر جنگ کے زمانے میں نازیوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے چیکو سلاواکیہ کے کمیونسٹ رہنما، دانشور اورادیب جیولیس فیوچک نے کیا خوب کہا تھا کہ”آپ میں سے جو لوگ تاریخ کے اس دور میں رہنے کے بعد بھی زندہ رہیں میں ان سے ایک بات کہوں گا کہ ان لوگوں کو کبھی مت بھولیے جواس جدوجہد میں حصہ لے رہے ہیں۔اچھے اور برے سب کو یاد رکھیے جنھوں نے آپ کے لیے اور اپنے لیے جان دی۔ ان کے متعلق جتنی شہادتیں ممکن ہوں بہم پہنچائے کہ حال بہرحال گزری ہوئی تاریخ میں تبدیل ہو جائے گا اور اس کے ان گنت ہیرو ہوں گے جنھوں نے تاریخ بنائی ہے۔ ان سب کے نام تھے، خدوخال تھے، امیدیں اور خواہشیں تھیں اور اس لیے ان میں سے کم ترین لوگوں کی تکلیفیں بھی ان لوگوں سے کسی طرح کم نہیں تھیں جن کے نام تاریخ میں محفوظ رہیں گے۔میں چاہتا ہوں کہ آپ ان سب سے قربت محسوس کیجیے جیسے آپ سب سے واقف ہیں،جیسے یہ سب آپ ہی کے خاندان سے ہیں یا جیسے آپ خود ہی ہیں۔“

دو عظیم انقلابی فیدل کاسترو اور امیلکار کیبرال

مجھے اس امر کا بخوبی ادراک ہے کہ یہ کتاب کوئی بڑا کام نہیں ہے۔میں اس حوالے سے کسی قسم کی خوش فہمی کا شکار نہیں ہوں۔ البتہ یہ افریقہ کے ایک انقلابی عبقری کو،ایک زبردست مساعی پسند کو، افریقہ کے ایک چھوٹے سے ملک کے بہا

درمحنت کش عوام کو، ان کی لافانی جدوجہد کو ایک ایشیائی مزدور زادے کا سرخ سلام ہے جس نے غریب الوطنی میں آٹھ سال افریقی محنت کشوں کے ساتھ محنت کے ستم جھیلتے ہوئے گزارے ہیں،جو ان سے بے پناہ محبت کرتا ہے اور جس کا ایمان ہے کہ افریقہ جیتے گا، محنت کش افریقی عوام جیتیں گے اور جلد یا بدیر امریکی سامراج، اس کے گماشتوں، طالع آزماؤں اوراس کے بنائے گئے نسلی ومذہبی جنونی گروہوں کو منہ کی کھانی پڑے گی۔ افریقی عوام کو حقیقی آزادی کے حصول سے کوئی نہیں روک پائے گا،وہ سفید سامراج کا سرغنہ انکل سام ہو یا اس کے قاتل جتھے اور خونی لشکر ہوں۔ کرہ ئ ارض کے سارے باشندوں کی طرح اشتراکیت افریقہ کا مقدر اور اس کا آنے والا کل ہے۔

مشتاق علی شان


افریقہ پر سفید سامراج کی یلغار

بادی النظر میں افریقہ آج غیر متعلقہ(IRRELEVANT) محسوس ہوتا ہے یوں جیسے اس کے عدو کی عین خواہش کے مطابق باقی دنیا کے لیے اس کا کوئی وجود ہی نہ ہو اور وہ کسی گدھ کی مانند اسے نوچتا ہی چلا جائے۔گویا ایک بھولا بسرا اور فراموش شدہ خطہ جس کا نا م سنتے ہی اذہان میں بھوک،افلاس،بیماریوں، خانہ جنگیوں اور قحط کے مناظر ابھرنے لگتے ہوں اور بس۔ لیکن کون جانے کہ یہی افریقہ جسے غاصبوں نے ”تاریک براعظم“ کا نام دیا تھا، جب دھرتی کے قابل نونہالوں نے اسے سرخ براعظم میں تبدیل کر نے کی ٹھانی تو یہاں کے رجز نامے دنیا بھر میں آزادی کے متوالوں کے جذبہئ حریت کو بھی مہمیز کرگئے۔ افریقہ کی انقلابی تحریکوں اور گوریلا جنگ کے میدانوں میں دادِ شجاعت دینے والے بہادر سورماؤں کے نام بھلے اب حافظوں سے محو ہو چکے ہوں،وہ پھریرے جو بڑی شان سے سامراجی لٹیروں کے مقابل بلند ہوئے اور چار دنگ عالم میں جن کا شہرہ ہوا آج بے شک سرنگوں ہی نہیں بلکہ قصہئ پارینہ معلوم ہوتے ہوں لیکن سچ تو یہ ہے کہ افریقہ کبھی غیر متعلقہ نہیں رہا یہ آج بھی اتنا ہیRELEVANTہے جتنا کہ گزشتہ صدی کے نصف میں تھا۔ البتہ یہ اور بات کہ سرد جنگ کے خاتمے اور سوشلسٹ بلاک کے انہدام کے بعد سامراج کے داؤ پیچ اتنے بدل چکے ہیں اور اس نے جدید ترین ٹیکنالوجی کی بدولت وہ مہیب قوت حاصل کر لی ہے جس کا پہلے تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ آج ایٹم بموں، ہائیڈروجن بموں،جراثیمی و حیاتیاتی ہتھیاروں اورجدید ترین روبوٹ ہتھیاروں (ڈرون)کے جلو میں امریکی سامراج کے شاہی سطوت کو بظاہر ناقابل شکست باور کرایا جاتا ہے کہ سرمایہ دارانہ سامراجی میڈیا اس کا ڈھنڈورچی بنا ہوا ہے۔عام ٹیلی ویژن چینلز اور اخبارات و رسائل سے لے کر انٹر نیٹ تک معلومات کا ایک طومار ہے جس میں سے صداقت کھوج نکالنا گویا جوئے شیر لانے کے مترادف ٹھہرا ہے اور یہ سامراجی پروپیگنڈے کا ایک ایسا مہلک ہتھیار ہے جو اپنے مخصوص مفادات کے تناظر میں ایک خاص قسم کی ذہن سازی میں مصروف ہے۔ نام نہاد دانشوروں، ادیبوں، صحافیوں،اور مورخین کی ایک فوج ظفر موج ہے سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ ثابت کرنا گویا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔یہ جسے چاہے بانس چڑھاتے پھریں اور جسے چاہے مردود ومعتوب ٹھہرائیں کہ سرمایہ پرستی کے جہاں میں چڑھتے سورج کی پوجا ہی سب سے بڑا ہنر وکمال ہے۔ اپنے طبقاتی مفادات کے مارے ہوئے چرب زبان بورژوا دانشور اورنام نہاد نظریہ دان جب افریقہ کی تباہی و بربادی کا ذمہ دار یہاں کی انقلابی تحریکوں اور راہنماؤں کو ٹھہراتے ہیں تو یہ دراصل قومی آزادی کی سامراج مخالف تحریکوں اور اشتراکیت کے خلاف ان کے بغض اور کینے کا ہی اظہار نہیں ہوتا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ سفید سامراج کے نئے سرخیل یعنی امریکی استعمار کے جرائم کی پردہ پوشی کابھی ”فریضہ“ سر انجام دیتے ہیں۔

افریقی عوام جنھوں نے سفید سامراج کے خلاف ایک شاندار جدوجہد کے نتیجے میں آزادی حاصل کی تھی، شروع دن سے ہی اسے نگلنے کے لیے یانکی عفریت اپنے جبڑے کھولے ہوئے تھا۔ یعنی افریقہ پر سفید سامراج کا قبضہ تو ختم ہو گیا لیکن اس کے فوراََ بعد ہی اس پراز سرِ نو قبضے اور وسائل کو ہڑپ کرنے کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا جب جدید نو آبادیت کی نکیل امریکی سامراج کے زیر پا آئی۔آج افریقہ کی لہو رنگ تصویر میں یہ جتنے افسردہ رنگ نظر آتے ہیں یہ اسی امریکی سامراج کی دین ہے جو پرتگیزی،ہسپانوی،برطانوی، اطالوی، ڈچ، فرانسیسی اور جرمن سامراج کی یہاں سے رخصتی کے بعد سے مستقل طور پر موجود ہے اور محض نصف صدی میں اس نے افریقہ کی وہ حالت کر دی ہے جو باقی سامراجی پانچ صدیوں میں بھی نہ کر سکے تھے۔اس صورتحال میں لیبیا کا صحرائی شیر کہلانے والے70سالہ گوریلا لیڈرعمر مختار کا پھانسی گھاٹ میں لٹکا جسم، کانگو کے کشت زاروں سے جنگلات اور دشت و میدانوں تک میں بکھری ہوئی پیٹرس لوممبا کے بدن کی راکھ،الجزائر کے بنی مہدی قبرستان میں محوخواب فرانز فینن،کونکری کی شاہراہ پر اپنے لہو کی قبا اوڑھے ہوئے امیلکار کیبرال،استوائی گنی کے زندان میں تختہئ دار کی طرف بڑھتا ہوا سر بکف میکیا نگوما،تنزانیہ میں دشمن کے بم کا نشانہ بننے والا موزمبیق کا بانکا انقلابی ایڈورڈو مونڈلین، اپنے وطن موزمبیق سے دور جنوبی افریقہ کی فضاؤں میں زمیں بوس ہوتے طیارے کے ساتھ سیمورا میشل کا بکھرا ہوا وجود،ایسے ان گنت نام، امن،آزادی اور اشتراکیت کے آدرش کے لیے اپنی جانیں نچھاور کر دینے والے افریقہ کے لاکھوں کفن بردوش انقلابی فرزند،ان کے نقوش کیونکر مٹائے جا سکتے ہیں اور ان کی جہدِ پہیم کیونکر فراموش کی جاسکتی ہے۔ سو افریقہ کو ایک بار پھر مصروفِ جہد ہونا ہے اور اسے اپنے ماضی کی شاندار انقلابی روایات سے بہت کچھ نیا بھی سیکھنا ہے۔وہ انقلابی ماضی جس کا ایک نام گنی بساؤ بھی ہے۔آ یئے پندرویں صدی کے افریقہ سے ہوتے ہوئے اس رزم گاہ کا سفر کریں جہاں امیلکار کیبرال اور PAIGCکے رزمیے بلند ہوئے جن کی گونج آج بھی اس امر کا اعلان کر رہی ہے کہ امریکی سامراج کا مقسوم بھی وہی تاریک گڑھے ہیں جن میں اس کے پیشرؤں کا دبدبہ و
جلا ل اوندھے منہ پڑا ہے۔

افریقہ پر سفید سامراج کے قبضے کا آغاز 1415 میں پرتگال نے مراکش کے شمال ساحل سے اوپر واقع سیوتا سے کیا تھا۔ جبرالٹر (جبل الطارق) کے بالمقابل یہ ایک چھوٹا سا مقام تھا مگر اس زمانے میں یہ انتہائی حربی اور تجارتی اہمیت کا حامل تھا۔یہ وہ زمانہ تھا جب خود پرتگیزیوں کو عربوں کی غلامی سے نجات حاصل کیے ابھی دو صدیاں ہی گزری تھیں۔سیوتا پر قبضے کی مہم کی قیادت پرتگیزی بادشاہ جان کے21سالہ بیٹے ہنری نے کی تھی جو بعد ازاں Enry The Navigatorکے نام سے معروف ہوا۔ پرتگیزی تاجروں کی تائید و ایماسے سیوتا پر قبضہ کرنے والے اس شہزادے کو یہاں کی گورنرشپ بطور انعام ملی۔اس زمانے کے پرتگال کو اگر سفید سامراج کا ہر اول دستہ کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا جس کے پیش نظریہاں کی پیداوار اور مصنوعات کی تجارت پر قابض ہونا اور یہاں کے وسائل بالخصوص سونے پر قبضہ کرنا تھا۔بعد میں یورپی سامراج کے پھیلاؤ کی تہہ میں یورپ کی صنعتی ترقی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی نئی منڈیوں اور خام مال وغیرہ کی ضرورت کارفرما تھی۔جبکہ افریقہ کے حوالے سے ایک اہم وجہ اس کا یورپ سے قریب ہونا بھی تھی۔

1446میں پرتگیزی جہاز ران گنی بساؤ کو دریافت کر تے ہوئے مغربی افریقہ کے اقیانوس ساحل سے جزائر کیپ وردے اور دریائے سینیگال کے دہانے تک پہنچ چکے تھے۔اس علاقے کو انھوں نے گینیا کا نام دیا جس کے معنی ہیں ”سونے کی سرزمین“ جبکہ گنی طلائی سکے کو کہا جاتا ہے۔1469تک پرتگیزی سری لیون میں اپنے تجارتی مراکز قائم کر چکے تھے اور1471تک وہ گولڈ کوسٹ(گھانا) میں بھی پہنچ چکے تھے جو کہ اس زمانے میں دنیا بھر کے سونے کی پیداوار کا دسواں حصہ پیدا کرتا تھا۔ اس سونے پر قابض ہونے کے ساتھ ساتھ پرتگیزی واسکوڈی گاما کے ذریعے ہندوستان کا بحری راستہ بھی دریافت کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے جبکہ مغربی افریقہ کی دیگر پیداوار کی تجارت بھی اس نے براہِ راست شروع کر دی تھی۔

پرتگال کی اس سامراجی لوٹ کھسوٹ نے اس کے پڑوسی ملک اسپین کو بھی اس امر پر اکسایا جہاں 1492میں آخری عرب حکومت”بنو الاحمر“ کا خاتمہ ہوا تھا۔اب عالمی تجارت اور استعماریت کے میدان میں اسپین پرتگال کے مقابل آرہا تھا لیکن مسیحی پوپ کو چونکہ ان دونوں کی رقابت پسند نہیں تھی اس لیے انھوں نے ان کی صلح کراتے ہوئے افریقہ کو پرتگال اور امریکا کو اسپین کے درمیان تقسیم کر دیا ”پاپائے اعظم“ کا یہ فیصلہ Papal Blillکہلایا جبکہ 1494میں ان دونوں سامراجی ممالک کی نو آبادیاتی توسیع پسندی کی حدود کا تعین کرنے والا یہ معاہدہTreaty Of Tordesillasکہلایا۔پاپائے روم کی اس مداخلت کا اصل سبب ایک طرف پادریوں کے مالی مفادات کا تحفظ تھا تو دوسری جانب وہ ان دو سامراجی طاقتوں کے ذریعے دو مختلف خطوں میں مسیحیت کی تبلیغ بھی چاہتا تھا۔ لہذا ان استعماری طاقتوں نے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے مذہب کو بھی خوب استعمال کیا اور انکے ہر جرم بشمول انسانی غلامی اور تجارت کو پادریوں کی پرجوش تائید حاصل رہی۔ اس معاہدے کے بعد افریقہ میں پرتگال کی پیش قدمی جاری رہی۔1484میں پرتگیزی انگولا کو بھی دریافت کر چکے تھے جس پر1575میں مکمل قبضہ ہو سکا۔1505میں پرتگیزیوں نے موزمبیق اور1509تک افریقہ کے مشرقی ساحل سوتالہ اور ممباسا میں قلعے تعمیر کیے جبکہ 1520میں زنجبار پر بھی قبضہ کر لیا۔ یوں ڈیڑھ صدی کے عرصے میں پرتگال افریقہ میں اپنی نوآبادیات کی طرح ڈال سکا۔

16ویں صدی کے آخر تک پرتگال اور اسپین نے دور دراز ممالک میں فوجی وتجارتی اڈے بنا کر جو سیاسی و معاشی فوائد حاصل کیے اس کا دیگر یورپی ممالک پر بھی اثر پڑا۔چنانچہ ان کی تقلید میں ہالینڈ جس نے خود اسپین سے آزادی حاصل کی تھی،وہ پرتگال اور اسپین سے تجارتی سامان وغیرہ خرید کر ناروے، سوئیڈن اور ڈنمارک وغیرہ میں فروخت کر کے گزارہ کرتا تھا،وہ بھی اسی استعماری راہ پر چل نکلا اور اس نے 1602میں ایک تجارتی کمپنی بنا کر افریقہ، ایشیااور جزائر غرب الہند(ویسٹ انڈیز) وغیرہ پر قبضے کی مہم شروع کی۔17ویں صدی کے آخر میں برطانوی اور فرانسیسی بھی اس میدان میں کود پڑے۔1663میں جب برطانوی بادشاہ چارلس ولسن کی شادی پرتگیزی شہزادی کیتھرائن سے ہوئی تو اسے بمبئی (ہندوستان) اور سیوتا(افریقہ) کی بندر گاہ جہیز میں دی گئی۔یوں ایشیا اور افریقہ میں انگریزوں کا داخلہ شروع ہوا۔ بعد ازاں برطانوی استعمار نے ایسی صورت اختیار کر لی جس کے بارے میں وہ کہتے تھے کہ ”ہمارے راج میں سورج غروب نہیں ہوتا“۔لیکن دنیا نے دیکھا کہ اس کا استعماری راج بھی ختم ہوا اور اس کا سورج بھی غروب ہوا۔فرانسیسی استعمار نے1658میں سینیگال پر قبضے سے اپنی سامراجیت کا آغاز کیا اور اس صدی کے اختتام سے قبل ہی وہ مڈغاسکر اور ماریشس پر بھی قابض ہو چکا تھا۔اس کے بعد دیگر یورپی ممالک بیلجیم،جرمنی،اٹلی اور امریکا وغیرہ بھی افریقہ پر قبضے اور لوٹ کھسوٹ میں شامل ہو گئے۔بیسوی صدی تک افریقہ مکمل طور پر مغربی سفید سامراج کے قبضے میں آچکا تھا صرف ایتھوپیا ان سے محفوظ رہا جس پر 1936میں اٹلی نے قبضہ کر لیا۔

اس صورتحال کوگھانا کے ایک شاعر اوکرہ فورڈوہ نے اپنی ایک نظم”افریقہ کی پکار“ میں یوں بیان کیا ہے۔
کوئی ہمیں بچاؤ،افریقہ بکھر رہا ہے
سفید فام کچھ کہتے ہیں۔۔۔۔۔افریقی کچھ اور کرتے ہیں!
جدوجہد۔۔۔۔۔جوابی جدوجہد
سیاہ فام لوگ بالا دستی حاصل کر رہے ہیں!!
کوئی ہمیں بچاؤ،افریقہ بکھر رہا ہے
کوئی ہمیں بچاؤ،افریقہ بکھر رہا ہے
گزرا ہوا کل سامراجی شکنجوں سے عبارت تھا
سفید فام بالا دست تھے اور افہام وتفہیم کی گنجائش نہیں تھی
آج قوم پرست افریقی اپنے آپ کو آزاد کرا رہے ہیں
موت۔۔۔۔۔ موت ہی موت، خون کا دریا
کوئی ہمیں بچاؤ۔۔۔۔۔۔ افریقہ برباد ہو رہا ہے
کوئی ہمیں بچاؤ۔۔۔۔۔۔افریقہ لُٹ رہا ہے
سونا، ہیرے، تانبا، چاندی، ٹین،لکڑی
سب کچھ سفید فام اپنے ملکوں کو لئے جا رہے ہیں
افریقی گنگ اور ششدر ہیں
کسی میں لب کشائی کا حوصلہ نہیں ہے
کوئی ہمیں بچاؤ۔۔۔۔۔۔افریقہ لُٹ رہا ہے
کوئی ہمیں بچاؤ کہ افریقہ بوجھ سے پستا جا رہا ہے
آئے دن سفید فام لوگ اپنے سرد ملکوں سے
زرخیز، خوشگوار اور دولت سے معمور افریقہ کی طرف آتے ہیں
اور یہاں کے غریب لوگوں کو تپتے ہوئے صحراؤں کی طرف دھکیل دیتے ہیں
ان کی مادرِ وطن سفید سامراج کی اسیر ہے
کوئی ہمیں بچاؤ کہ افریقہ اس بھاری بوجھ سے پِستا جا رہا ہے
کوئی ہمیں بچاؤ کہ افریقی مفلسی کے آخری کنارے پر ہے
سفید فام ہماری ساری دولت لوٹ لے گئے ہیں
غریب افریقی عوام تہی دست ہیں
ان کے حصے میں بھوک، بیماری اور مشقت کے سوا کچھ نہیں
سفید فام موٹا ہو رہا ہے،افریقیوں کی پسلیاں نکلی آ رہی ہیں
سفید فام مزے کر رہا ہے افریقی نوحہ بلب ہے
کوئی ہمیں بچاؤ افریقہ مفلسی کی دہلیز پر ہے
افریقیو! اٹھو کہ سفید فام بڑھتے چلے آ رہے ہیں!
وہ افریقیوں کو سیڑھیوں کی طرح استعمال کرتے ہیں
اور انھیں ان کی مفلسی جہالت اور پسماندگی میں بے یارو مددگار چھوڑ کر
اوپر ہی اوپر چڑھے جاتے ہیں
کوئی ہمیں بچاؤ کہ سفید فام بڑھتے چلے آ رہے ہیں
کوئی ہمیں بچاؤ کہ افریقہ محبوس ہے
عظیم افریقہ اپنی قوت کے ساتھ جاگ!
آگے بڑھو اور سب زنجیریں توڑ دو
منتقم مزاجی سے نہیں، صبر سے اپنے وطن کو آزاد کراؤ
کوئی بچاؤ کہ افریقہ جکڑا ہوا ہے
مدد کہ افریقہ کے بہادر سپوت کھو گئے ہیں
بے شمار جہاز انھیں اپنے دامن میں بھر کر
”نئی دنیا“کی طرف لے گئے ہیں
تاکہ وہ ایک مستقل غلامی میں زندگی بسر کریں
اور افریقہ خالی ہو گیا ہے
کچھ نیک دل لوگوں نے انسانی ہمدردی کے تحت انھیں آزاد تو کر دیا ہے
مگر افسوس کہ گھر سے ان کارابطہ ہمیشہ کے لیے منقطع ہو گیا ہے
اے ان گنت سیاہ فام لوگو!اپنے کھوئے ہوئے عہدِ عافیت
اور اپنی واپسی کے لیے دعائیں مانگو
مدد کہ افریقہ کے بیٹے اس سے ہمیشہ کے لیے چھن گئے ہیں
مدد کہ ہمارے جیالے تیزی سے ختم ہو رہے ہیں
اب وہ باوقار،مستغنی اور ذہین فرزندانِ افریقہ کہاں ہیں!
عظیم دوما اور عظیم سیاستدان لُوتھر
افریقہ کا مشہور جیالا ایگری اور عظیم زولو ہیں؟ چاکا اب کہاں
اور وہ دوسرے عظیم لوگ جو ہم سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ گئے ہیں
مدد اے افریقہ کہ تیرے فرزند تیزی سے نابود ہو رہے ہیں
اٹھو اے افریقہ کے بیٹو،تمہاری مادرِ وطن تباہ ہو رہی ہے
کیپ سے قاہرہ تک اور ڈیکر سے زنجبار تک
سب علاقے ہلاکت کی زد میں ہیں
اٹھو اور سفید فاموں کی بربریت کو مار مار کر اپنی سرحدوں سے نکال دو
غلامی بہت ہو چکی، اب آزادی کی طرف پیش قدمی کرو
کوئی افریقہ کی مدد کرے، یہ مدد کی گھڑی ہے
کون ایسا بہادر ہے جو اس کا بِیڑا اُٹھائے گا
اُٹھو اور اس سے پیشتر کہ سب کچھ فنا ہو جائے، ہماری مدد کرو
اُٹھو اور بدقسمتی کے اس بڑھتے ہوئے سیلاب کو روکنے میں ہماری مدد کرو


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔