ٹرمپ کا کہنا ہے چین کی 250 ارب ڈالرز کی مصنوعات پر عائد 25 فی صد ٹیکس یکم اکتوبر سے بڑھا کر 30 فیصد کر دیا جائے گا جبکہ 300 ارب ڈالر زکی چینی مصنوعات پر عائد 10 فی صد ٹیرف کو، جو یکم ستمبر سے 15 دسمبر کے درمیان لاگو ہونا ہے ، بڑھا کر 15 فی صد کر دیا گیا ہے۔
یہ اعلان صدر ٹرمپ کے امریکی کمپنیوں کو چین چھوڑنے کا حکم دینے کے پانچ گھنٹے بعد سامنے آیا ۔ اس کا آغاز ہی اس شکایت کے ساتھ ہوتا ہے کہ امریکہ ہر سال چین کے ہاتھوںسینکڑوں ارب ڈالرز کا نقصان اٹھاتا ہے۔
ٹرمپ نے اپنی ٹویٹ میں لکھا افسوس ناک بات ہے کہ سابقہ حکومتوں نے چین کو تجارت کے توازن میں برتری حاصل کرنے کا موقع دیا، جو امریکی ٹیکس دہندگان پر ایک بوجھ بن چکا ہے، بطور صدر میں اس کی اجازت نہیں دے سکتا، ہمیں اس غیر متوازن تجارتی تعلق میں توازن لانا ہو گا،چین کو امریکی مصنوعات پر 75 ارب ڈالرز کے نئے ٹیرف عائد نہیں کرنا چاہیے تھے۔
تجارتی جنگ میں اس بڑھتی کشیدگی نے سرمایہ کاروں کے حوصلے پست کر دیے ہیں اور جمعے کو امریکی سٹاک مارکیٹ میں 623 پوائنٹس کی کمی واقع ہوئی۔
تاہم صدر ٹرمپ نے ان خدشات کو مذاق میں اڑاتے ہوئے سٹاک مارکیٹ کی اس مندی کو سیتھ مولٹون کے صدارتی دوڑ سے دستبرداری سے جوڑ دیا۔
کمپنیاں اور کاروباری ادارے چین اور امریکہ پر زور دے رہے ہیں کہ وہ اس تجارتی جنگ کے خاتمے کے لیے مذاکرات جاری رکھیں۔