ویب سائٹ ایگزیوس کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تجویز دی ہے کہ کیوں ناں سمندری طوفان کے امریکہ تک پہنچنے سے قبل ہی اس پر ’نیوکلیئر بم‘ گرا دیے جائیں۔
رپورٹ کے مطابق طوفان کے بارے میں صدر کو دی جانے والی بریفنگ کے دوران انہوں نے سوال پوچھا کہ افریقہ کے ساحلی علاقے میں طوفان کی شکل اختیار کرنے والی آندھی کو روکنے کے لیے کیا ان پر جوہری حملہ کیا جا سکتا ہے؟
ویب سائٹ نے نامعلوم ذرائع کے حوالے سے لکھا کہ صدر ٹرمپ کے اس سوال پر میٹنگ کے شرکا سوچ میں پڑ گئے کہ ’اب اس کا کیا کیا جا سکتا ہے؟
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ایگزیوس نے اس حوالے سے کچھ نہیں بتایا کہ یہ گفتگو کب ہوئی۔
رپورٹس کے مطابق صدر ٹرمپ کی جانب سے یہ تجویز پہلی بار نہیں دی گئی ہے۔ 2017 میں بھی ٹرمپ ایک اعلیٰ عہدیدار سے پوچھ چکے ہیں کہ کیا حکومت طوفان کو روکنے کے لیے اس پر بم سے حملہ کر سکتی ہے؟
اس گفتگو میں صدر ٹرمپ نے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا ذکر نہیں کیا تھا۔
وائٹ ہاؤس نے اس بارے میں موقف دینے سے انکار کیا ہے لیکن ایگزیوس نے اس حوالے سے ایک سینیئر اہلکار کا بیان لکھا ہے جن کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کی ’نیت بری نہیں‘ ہے۔
ٹرمپ کا یہ خیال نیا نہیں ہے۔ اسی قسم کی تجاویز صدر آئزن ہاور کی صدارت کے دوران ایک حکومتی سائنسدان بھی دے چکے ہیں۔
یہ آئیڈیا بار بار سر اٹھاتا رہتا ہے گو کہ سائنسدان اس بارے میں متفق ہیں کہ یہ کام نہیں کرے گا۔ نیشنل اوشین اینڈ ایٹموسفیر ایڈمنسٹریشن (این او اے اے) پر اس حوالے سے ایک پورا صفحہ مختص ہے۔
این او اے اے کا کہنا ہے کہ ’ہر طوفان کے دوران ایسے مشورے سامنے آتے ہیں کہ ہمیں طوفان کو تباہ کرنے کے لیے جوہری ہتھیاروں کا استعمال کرنا چاہیے۔ ایسا کرنے سے بم طوفان کو روک نہیں سکیں گے لیکن تابکاری مواد آندھی کے ساتھ قریبی علاقے میں پھیل جائے گا۔ یہ ایک اچھا خیال نہیں ہے۔
امریکہ کو اکثر اوقات طوفانوں کا سامنا رہتا ہے۔ 2017 میں گذشتہ 12 سال کا تیز ترین طوفان ہاروی ساحلی علاقوں سے ٹکرایا تھا۔