امریکی محکمہ خارجہ نے کہا ہے کہ امریکی خصوصی ایلچی برائے افغانستان دوحہ کے سفر پر روانہ ہوگئے ہیں، تاکہ امن سمجھوتے پر طالبان کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ جاری کیا جا سکے، جس کا مقصد ملک کے 18 برس پرانے تنازعے کو ختم کرنا ہے۔
ایک بیان میں بتایا گیا ہے کہ زلمے خلیل زاد کابل بھی جائیں گے جہاں وہ افغان حکومت کی قیادت سے امن عمل اور بین الافغان مذاکرات کی مکمل تیاری کی حوصلہ افزائی کر سکیں۔
طالبان افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا کے نظام الاوقات کے بارے میں امریکہ سے بات چیت کرتے رہے ہیں۔ لیکن، جب تک یہ سلسلہ جاری رہتا ہے، باغی گروپ کا کہنا ہے کہ تب تک وہ بین الافغان مذاکرات میں شریک نہیں ہوں گے، جس کا مقصد مستقل جنگ بندی اور آئندہ کی سیاسی عمل داری سے متعلق معاملات کو زیر بحث لانا ہے۔
غیر ملکی فوج کے انخلا کے بدلے میں طالبان اس بات کا ذمہ لیں گے کہ مختلف ملکوں سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں کو اس بات کی اجازت نہیں دی جائے گی کہ وہ باغیوں کے زیر کنٹرول علاقہ بین الاقوامی دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے۔
حالیہ دنوں کے دوران، طالبان اور امریکی مذاکرات کاروں نے بارہا زور دے کر کہا ہے کہ وہ سمجھوتے پر دستخط کرنے پر تیار ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ دونوں فریق تفصیلات طے کر رہے ہیں۔
گذشتہ ہفتے، ٹرمپ نے کہا تھا کہ امریکی انخلا کا منصوبہ ابھی طے ہونا باقی ہے۔
بقول ان کے، ہم (طالبان کے ساتھ) انتہائی اچھی بات چیت کر رہے ہیں۔ ہم دیکھیں گے، کیا ہوتا ہے۔ شاید ہم فوجوں کی تعداد میں کمی لاکر اسے 13000 افراد (فوجیوں) تک کری دیں؛ ہم اسے ابھی مزید کم کریں گے، پھر ہم فیصلہ کریں گے آیا ہم مزید مدت تک وہاں رہیں گے یا نہیں۔
ٹرمپ نے کہا کہ امریکہ اس بات کا خواہاں ہے کہ داعش اور القاعدہ کے خلاف کارروائی کے لیے انتہائی کلیدی انٹیلی جنس باقی رکھی جائے۔ انھوں نے مزید کہا کہ افغانستان اب بھی دہشت گردوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔