اسد ایک مسکراہٹ باقی تھا – سنگر بلوچ

787

اسد ایک مسکراہٹ باقی تھا

تحریر: سنگر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

گُذشتہ کئی سالوں سے بلوچ قوم اپنے سرزمین کی دفاع کیلئے قبضہ گیر ریاست پاکستان سے لڑتے آرہے ہیں اور اپنے سرزمین کیلئے ہزاروں بلوچ فرزندوں نے جامِ شھادت نوش کی اور بلوچ قومی تحریک کو نئی روح بخش دی اور ہمیشہ ہمشہ کیلئے بلوچ قُوم اور دنیا میں انقلابیوں کے دلوں میں اپنا راج قائم کردیا۔

ان کرداروں میں سے ایک کردار شہید اسد یوسف عرف شہیک بلوچ بھی ہے، جس نے اپنے ساری زندگی کو بلوچ قوم اور بلوچستان اور بلوچ سرزمین کیلئے قُربان کردیا اور اپنے آپ کو بلوچ قومی تحریک میں زندہ کردیا، آج میں اپنے شہید کامریڈ شہیک جان کے بارے کچھ الفاظ قلم بند کرنا چاہتا ہوں، مگر شہید کامریڈ اسد یوسف کے کردار میرے الفاظ کا محتاج نہیں ہے اور میں ایسا لکھاری نہیں ہوں کہ اسد جیسے کردار کے بارے میں لکھوں، ہاں میں اگر شہید اسد کے بارے میں نہیں لکھوں میں اپنے ضمیرمیں مطمئن نہیں ہونگا اسلیئے کوشش کرتا ہوں کے کچھ لکھوں۔

اسد جان عرف شہیک ایک خوش مزاج اور درویش صفت انسان تھا، جسے ہر کوئی ملتا تھا وہ جانتا تھا کے اسد کے اندر کیا ہے اور اسد بلوچ قومی تحریک سے کتنے سنجیدگی میں مُنسلک ہے، ہر وقت بلوچ قومی تحریک کے بارے میں بات کرتا تھا، تحریک کے ہر ایک کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش میں تھا، اتحاد کیلئے کتنی کوششیں کرتا تھا کہ بلوچ مُسلح تنظیمیں آپس میں متحد ہوجائیں اور ایک مشترکہ فرنٹ بنائیں جس کی تحت کام کریں اور بلوچ قوم اور بلوچ سرمچاروں کو مایوسی سے بچائیں، اگر ہم بلوچ قومی جنگ کو ایمانداری سے آگے لیجائیں اس کیلئے صرف ہمارے لیے راستہ اتحاد ہے۔

جس وقت بلوچ لیبریشن آرمی اور بلوچ لیبریشن فرنٹ نے آپس میں اتحاد کر لیا تھا تو شہید اسد جان اس وقت کتنا خوش تھا اور اپنے تنظیم بی آر اے پر کتنا زور دیتا تھا کہ بی ایل ایف اور بی ایل اے کے اتحاد میں شامل ہو جائے مگر بدقسمتی سے بی آر اے کے سرکردہ لوگوں نے شہیک کی بات کو نہیں مانا، اس وقت گُلزار امام بھی شہید شہیک کے ساتھ تھا کہ ہمیں ہر لحاظ سے ان دونوں تنظیموں کے ساتھ اتحاد کرنا چاہیئے، اتحاد ہمارا واحد راستہ ہے، جو ہمیں ہماری منزل آزادی تک پہنچا سکتا ہے۔

شہید شہیک اور گلزار امام ہر وقت ان باتوں کا نواب براہمدگ بُگٹی صاحب پر زور دیتے تھے، مگر براہمدگ بُگٹی کو ان دونوں کی بات اچھی نہیں لگی، اسلیئے آخر اُستاد گُلزار امام مجبور ہو کر اپنا راستہ براہمدگ بُگٹی صاحب سے الگ کردیا۔ اس وقت شہید کامریڈ اسد جان کتنا خوش تھا کے ہم ان فرسودہ سوچوں سے جُدا ہوگئے، آپ لوگ ہمت اور حوصلے کو برقرار رکھیں، انشااللہ ہم جلد اپنے منزل آزادی تک پہنچ جائینگے، اور جلد براس میں شامل ہوجائینگے، مگر وقت نے شہید اسد جان کا ساتھ نہیں دیا کہ اسد اپنے آنکھوں سے بی آر اے بیبگر بلوچ کے اسٹیٹمنٹ کو پڑھتے جب وہ براس میں شامل ہوا۔

آج میں یہ جانتا ہو کہ اگر آج بی آر اے بیبگر براس میں شامل ہے، یہ شہید اسد جان کا مرہون منت ہے اور اسلیئے آج میں کہہ رہاں ہوں کہ اسد جان کی ایک مُسکراہٹ باقی تھا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔