بلوچ آزادی پسند رہنما ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے معروف ہندوستانی ادیب ارون دھتی رائے کے پاکستان سے متعلق بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم سمجھ رہے تھے کہ رائے صاحبہ انسانی حقوق کی سرگرم کارکن ہیں۔ انسانی حقوق سے متعلق مسائل پر لکھتی ہیں۔ جانکاری رکھتی ہیں۔ اور ایک دن بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کو سامنے لائیں گی۔ لیکن انہوں نے حقائق کو یکسر جھٹلا کر خطے کی تاریخ سے آگاہی حاصل کرنے کے بجائے جہالت کا ثبوت پیش کیا ہے۔
ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا کہ ارون دھتی رائے کی لاعلمی باعث حیرت ہے کیونکہ پاکستان کی فوجی بربریت کسی تعریف و تشریح کی محتاج نہیں ہے۔ میں چند ایک حقائق ارون دھتی رائے کے سامنے رکھتا ہوں۔
اول یہ کہ یہ پاکستان کی فوج تھی جس نے 27 مارچ 1948 کو برطانوی راج سے نوآزاد بلوچستان پر چڑھائی کرکے نہ صرف ہماری آزادی سلب کرلی بلکہ بلوچ نسل کشی کا آغاز کردیا جو کہ آج تک جاری ہے۔ اور اس میں وقت کے ساتھ شدت آرہی ہے۔ اس وقت تک ہزاروں کی تعداد میں بلوچ قتل کئے جا چکے ہیں۔ ہزاروں پاکستانی فوج کے زندانوں میں قید ہیں۔ لاکھوں لوگ جبری نقل مکانی کا شکار ہو کر دربدر ہیں۔
دوئم یہ کہ یہ پاکستان تھا جس نے ارون دھتی رائے کی نظروں کے سامنے لاکھوں بنگالی عوام کا قتل عام کیا۔ لاکھوں بنگالی خواتین کی عصمت دری کی۔ جب ہندوستان بنگالی عوام کی مدد کو پہنچا تو ترانوے ہزار پاکستانی فوج نے ہتھیار پھینک دیئے۔
سوئم یہ کہ پاکستان کی تاریخ میں بیشتر اوقات فوج کی براہ راست حکومت رہی ہے اور بنیادی انسانی حقوق معطل رہی ہیں۔ جبکہ نام نہاد جمہوری ادوار میں بھی پسِ پردہ فوج نے حکومت چلائی ہے جیسا کہ آج بھی چلا رہی ہے۔
چہارم یہ کہ بلوچستان کے علاوہ پشتون علاقوں میں بھی پاکستانی فوج کی ننگی جارحیت پوری دنیا کے سامنے عیاں ہے۔ ہزاروں پشتون قتل کئے جا چکے ہیں۔ ہزاروں لاپتہ ہیں۔ لاکھوں جبری نقل مکانی کے بعد فوج کی سرپرستی میں قائم کیمپوں میں محصور ہیں۔
پنجم یہ کہ بلوچستان اور پشتون علاقوں میں بے پناہ فوجی بربریت سے علاقے جنگ عظیم دوئم کی یاد دلاتے ہیں۔ جہاں پاکستانی فوج آرٹلری، جنگی جہازوں اور توپ خانے کے ساتھ حملہ آور ہے۔ پاکستان کے جنگی جرائم سے یہاں انسانی المیہ جنم لے چکا ہے۔ بلوچ اور پشتون انسانی المیے نے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ مگر افسوس کہ آپ کا نہیں۔
لیکن ارون دھتی کا یہ کہنا کہ ”پاکستان نے فوج کبھی عوام کے خلاف استعمال نہیں کی ہے“۔ ان کا یہ بیان نہ صرف انسانی حقوق سے ان کی کمٹمنٹ کو مشکوک بناتا ہے بلکہ پاکستان کی تاریخ سے مکمل لاعملی کو بھی ظاہر کرتا ہے۔
ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا کہ بلوچستان ایک چھاؤنی میں تبدیل ہو چکا ہے۔ ہر پانچ کلومیٹر پر پاکستانی فوج کی چوکیاں اور کیمپ قائم ہیں جہاں ہر روز شریف النفس بلوچ عوام کی بے حرمتی ایک عام سی بات ہوگئی ہے۔ چین پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) منصوبے کے معاہدات کے بعد اس کی روٹ پر آنے والے گاؤں اور بستیوں کو جس طرح بمباری کرکے فوجی آپریشنزکے ذریعے صفحہ ہستی سے مٹایا گیا، اسے صرف پاکستانی عینک سے دیکھنے والے نہیں دیکھ سکتے۔ وگرنہ باقی پوری دنیا واضح طور پر دیکھ سکتی ہے۔ ارون دھتی رائے جیسے تمام لوگوں کے پاس مختلف آپشنز موجود ہیں۔ آیا وہ اپنی تحاریر اور تقاریر کو حق اور سچائی کے دامن میں پِرو کر پیش کرتے ہیں یا حالات سے غافل ہوکر باطل کا ساتھ دیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مورخین کی ذمہ داری سب سے بڑی اور اعلیٰ ہوتی ہے، وہ مستقبل کو ایندھن فراہم کرکے آنے والی نسلوں کو صحیح راستے چننے میں مدد گار ثابت ہوتے ہیں۔ ایسے میں اگر ارون دھتی رائے جیسی شخصیت پاکستان کے بارے آنکھیں بند کرکے اپنی رائے قائم کرتی ہیں تو یقینا وہ اپنی ذمہ داریوں سے غافل ہیں۔
اس سے بلوچ قوم خصوصاً بلوچ قومی شہدا اور ہزاروں لاپتہ افراد کے خاندانوں کے احساسات کو نہایت ٹھیس پہنچی ہے۔ بلوچ قوم امید کرتی ہے کہ وہ اپنی اس غلطی کی تصحیح کرکے تاریخ کے ساتھ انصاف کریں گی۔ ساتھ ہی یقینا بنگالی قوم بھی یہی توقع رکھ رہی ہے۔