ادراکِ بار ثبوت – حکیم واڈیلہ

296

ادراکِ بار ثبوت

تحریر: حکیم واڈیلہ

دی بلوچستان پوسٹ

گمان ہوتا ہے کہ گذشتہ کچھ عرصے سے لکھنے کی صلاحیت کھوچکا تھا کیونکہ کچھ بھی لکھنے کی کوشش کرتا تو تحریر ادھوری ہی لکھ پاتا اور پھر تھک ہارکر کسی اور کام میں خود کو مشغول کردیتا، اس دوران کتنے ہی ایسے واقعات گذرے جن پر لکھنا ضروری سمجھتےہوئے بھی لکھ نہیں سکا۔ یا پھر دیگر الفاظ میں یوں کہیں کہ یہ اندازہ ہونے لگا ہے کہ لکھنے سے زیادہ پڑھنا اور سمجھنا ضروری ہے۔ مخصوص واقعات پر لکھنا، کسی مخصوص دن پر لکھنا، کسی شہید کی شہادت پر لکھنا یا حادثات کو بیان کرنا اتنا مشکل نہیں جتنا مشکل ایک ایسی تحریر لکھنا ہے جس میں سوالات ہوں، تنقید ہو، کردار کا تعین ہو، دنیا کے دیگر تحریکوں کی تاریخ اور اپنے ماضی حال اور مستقبل کا غیر جانبدارانہ و ایماندارانہ جائزہ لیکر سمتیں متعین کرنی ہوں۔ اگر تحریر کسی مخصوص موقع کی نسبت سے لکھی جائے تو اس کے لئے ریسرچ کی بھی اتنی ضرورت نہیں پڑتی مثال کے طور پر گیارہ اگست بلوچستان کی آزادی کے دن کے حوالے سے تحریر لکھنی ہو تو ۱۳ نومبر ۱۸۳۹ سے شروع کرکے کچھ تاریخی واقعات کا حوالہ دیکر پھر برطانوئی سازش کے حوالے گفتگو جاری رکھتے ہوئے ستائس مارچ تک کے واقعات شامل کرکے پھر بعدازاں جاری بلوچ جدوجہد کا حوالہ دیکر ایک دلکش اور بھرپور تحریر کو مکمل کیا جاسکتا ہے ۔

ٹھیک اسی طرح ستائیس مارچ، اٹھائیس مئی، تیرہ نومبر، اور دیگر تاریخی واقعات و سانحات کے حوالے سے تحریر لکھنا یقینی طور پر ان تحریروں سے کسی حد تک آسان اور لکھنے کے لئے مواد کا دستیاب ہونا بھی کافی مدد گار ثابت ہوتا ہے۔ جبکہ دوسری جانب آپکو سوچنا ہوتا ہے، سمجھنا پڑتا ہے، ریسرچ کرنا پڑتا ہے، کافی محنت و مشقت کرنے کے بعد ہی ایک ایسی بات کہی جاسکتی جس سے لوگوں کے دل و دماغ پر اثر کیا جاسکتا ہو۔

یہاں قطعی طور پر ان تحریروں کو مثال بناکر پیش کرنے کا مقصد یہ نہیں کہ جو ساتھی اور لکھاری ان تاریخی واقعات اور سانحات کو بہتر انداز سے بیان کرکے اپنی قومی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے عوامی شعور پھیلاتے ہیں انکی دل آزاری کی جائے، بلکہ اپنی اصلاح کرکے دل میں قید خیالات کو قلم بند کرنے کی کوشش ہے جس سے کم از کم راقم اپنے ذات میں موجود کوتاہیوں کی نشاندہی کرکے بہتر انداز سے آگے بڑھ سکتاہے۔

جس دور میں ہم جی رہے ہیں جہاں برق رفتاری سے ترقی کرنے والی دنیا نے لوگوں کو آپس میں اس طرح کنیکٹ کردیا ہے کہ اب نہ صرف زمین پر ہی آپ ایک دوسرے سے سیکنڈز میں رابطہ کرسکتے ہیں بلکہ فضاء میں بھی آپ کا رابطہ برقرا رہتا ہے اور اب تو دیگر سیاروں تک رسائی حاصل کرنے والے انسان اس کوشش میں لگے ہیں کہ کیسے انسانوں کو کسی اور سیارے پر زندگی فراہم کرنے اور وہاں زندگی کو مکمل یقینی اور آسان بنانے کی ترکیبات پر کام کیا جارہا ہے۔ سوچنے کی حد تک یہ تمام ترقیاں نہ صرف انسانیت کی ترقی ہے بلکہ ایک حد تک فخر بھی کیا جاسکتا ہے کہ انسانی ذہن اس قدر تیز و توانا ہوسکتاہے کہ وہ زمین پر بیٹھ کر دیگر سیاروں پر گرفت حاصل کرسکتا ہے۔ لیکن اگر آپ اس سے بڑھکر کسی خوش فہمی کا شکار ہونا چاہتے ہیں کہ اس تمام عمل میں، اس تمام ترقی میں، بحیثیت قوم کوئی کردار ادا کیئے بغیر عالمی ترقی کے اس دوڑ میں پہلی صف میں شامل ہوکر ترقی یافتہ دنیا سے مقابلہ کرسکیں گے تو یقیناً یہ ایک انتہائی احمقانہ اور فضول سوچ ہوگی۔

اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ درج بالا پیراگراف میں لکھی گئی باتوں کا اس تحریر سے، بلوچ قومی تحریک برائے آزادی سے، بلوچ سماج سے یا بلوچ قوم سے کسی بھی قسم کا تعلق کیسے ہوسکتا ہے؟ تو آپ یقیناً درست سوچ رہے ہیں گذشتہ کچھ عرصے سے میں بھی اسی سوچ و کشمکش میں مبتلا ہوں کہ ہم بحیثیت قوم کس طرح سے دنیاوی ترقی، سائنسی ترقی ، ٹیکنالوجی کی فیلڈ میں ہونے والی ترقی یا دنیا میں موجود سیاسی نظاموں کی پرورش میں ہمارا کردار؟ ان تمام سوالات کو سوچ کر پھر اپنے ہاتھ میں موجود موبائل فون کو دیکھ کر سوچنے لگتا ہوں کہ خیر بحیثیت قوم ترقی تو ہم نے بھی بہت کی ہے کہ ہم موبائل کو استعمال کرسکتے ہیں، سائنس کی دریافت سے فائدہ مند ہوسکتے ہیں لیکن پھر اچانک سے خیال آیا کہ کیا اس موبائل کو استعمال کرنا اہم ہے یا اس موبائل کو اس شکل و صورت میں پیش کرنا اور اس قدر آسان بنانا اہم ہے کہ اسے ایک بے علم شخص بھی استعمال کرسکتا ہو،سائنسی ترقیوں پر بغلیں بجانا اہم ہے یا سائنسی تبدیلیوں یا ترقی کا حصہ بن کر دنیا کی بہتری کیلئے کردار ادا کرنا اہم ہے؟

درج بالا پیراگراف میں دیئے گئے مثالوں کی روشنی میں بلوچ قومی جدوجہد برائے آزادی، بلوچ سماج اور بلوچ ڈائسپورہ کے کردار کو پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بلوچستان کے حوالے سے جاری جدوجہد میں آج بلوچ قومی مزاحمت نے جس طرح سے اپنے سمتوں کو متعین کرکے بہتر انداز میں اپنی جدوجہد جاری رکھی ہے جو کہ تاریخی اور مثالی کردار ہے، جس پر جتنا فخر کیا جائے کم ہوگا۔ یقیناً جب جدوجہد کی شدت بڑھتی ہے تو دشمن کی جانب سے ظلم و جبر ساتھیوں کو شہید کرنے، رہنماوں کو ہم سے جسمانی طور پر جدا کرنے کی سازشیں بھی بلاشبہ جاری و ساری رہتی ہیں۔ لیکن بلوچ فرزندان نے اپنے عظیم قائد و ساتھیوں کی قربانیوں کے باوجود بھی دشمن کو نہ صرف کاری ضرب لگانے میں کوئی کثر نہیں چھوڑا بلکہ سی پیک جس کا مقصد بلوچ بحر پر قابض ہوکر بلوچوں کو اقلیت میں تبدیل کرنے جیسے سامراجی منصوبے کو بھی خاموش کرکے موت کے آغوش میں سلاد یا ہے۔

لیکن کیا ہماری جانب سے اس تمام صورتحال کا عالمی حوالے سے سیاسی طور پر بہتر انداز میں فائدہ اٹھایا جارہا ہے؟ کیا ہماری جانب سے عالمی تبدیلیوں کے پیش نظر پالیسیاں مرتب کی جارہی ہیں؟ کیا ہم اپنے سماج میں موجود حقیقی قومی لکھاریوں اور دانشوروں کے نقطہ نظر کو سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں؟ کیا ہم صرف اس فارمولے پر ہی عمل نہیں کررہے کہ ہم موبائل استعمال کرکے کردار ادا کررہے ہیں لیکن خود موبائل بنانے کی جددجہد کیوں نہیں کررہے ہیں؟ ہم کیونکر اس حوالے سے بلکل بھی نہیں سوچ رہے ہیں کہ دنیا کی آنکھیں آج ہم پر ٹکی ہیں۔ دنیا بلوچ قومی سیاسی موقف کو سننا چاہتی ہے اور سیاسی آواز کو عالمی سطح پر دنیا تک پہنچانے کیلئے یقیناً سیاسی پارٹی ہی بہتر اور منظم طریقہ ہوسکتا ہے، جس سے دنیا کو بلوچ قومی مسئلے کی جانب متوجہ کیا جاسکتا ہے۔ لیکن کیا ہم بحیثیت بلوچ قومی پارٹی کے کارکنان جو بلوچستان سے ہزاروں میل دور جلاوطنی کی زندگی گذار رہے ہیں کیا ہم ابتک اس حقیقت کو سمجھنے میں کامیاب ہوئے ہیں کہ دنیا کی تحریکوں کو کامیابی اگر نصیب ہوئی ہے تو اس میں سب سے اہم کردار عمل نے ہی ادا کیا ہے۔ عمل جس کی شروعات ہی اپنے آپ کو تبدیل کرنے سے ہوتی ہے عمل جس کی بنیادی شرط پختہ شعور و ایمانداری ہوتی ہے۔ جس کے بدولت نہ صرف انسان اپنے آپ، اپنے مسائل، اپنے مشکلات و سختیوں کو پس پشت ڈال کر اپنے منزل اور تحریکی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں اس قدر مشغول ہوجاتا ہے کہ پھر اس عمل کو روکنا اور اس عمل کے سامنے رکاوٹ بننا مشکل ہی نہیں ناممکن بن جاتا ہے۔

اب چونکہ ہم جنہیں ڈائسپورہ کہتے ہیں، ہم جو اپنے سرزمین سے، لوگوں سے ہزاروں میل دور ہیں، زمین پر موجود ان مشکلات اور سختیوں سے محفوظ ہیں، جو ہمارے ساتھیوں، دوستوں، رشتہ داروں کو درپیش ہیں لاپتہ ہونے کے غم سے مارے جانے کے ڈر سے دور ایک آزاد ماحول میں زندگی گذارتے ہیں تو یقیناً ہم پر اسی وجہ سے زیادہ ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں۔ ہماری مشکلات، ہمارے مسائل اس قدر سنگین ہو ہی نہیں سکتے کہ ہم سیاسی عمل و آواز کو دنیا تک پہنچانے میں کوتاہی کریں۔ یہ الگ بات ہوسکتی ہے کہ ہم کسی بھی عمل کے سنگینی کو سمجھنے یا اس عمل کو سنجیدگی سے لینے سے قاصر ہوں۔ لیکن اگر ہم میں کمی و کوتاہی کم سے کم ہو، ہماری اولین ترجیح قومی ذمہ داری ہو، ہمارے لیئے قومی پیغام کا پرچار ہی زندگی کا اولین مقصد ہو اور سب سے بڑھکر بلوچ قومی جہدسے ایماندارانہ رشتے کا قیام ہو، جو یقیناً ہماری کامیابی اور بہتر مستقبل کا ضامن ہوسکتا ہے۔

اگر بلوچ ڈائسپورہ میں موجود حقیقی تحریکی ساتھیوں کو اس بات کا ادراک ہوجائے کہ آج جن سیاسی ساتھیوں سے سیاسی جدوجہد کا حق چھین لیا گیا ہے، آج جو دوست اس امید پر بیٹھے ہیں کہ بیرون ملک ہماری آواز کو منظم انداز میں اٹھایا جارہا ہے، آج اگر بلوچ عوام کو یہ اندازہ ہوجائے کہ جس طرح بلوچ قومی جدوجہد کے جہدکار سرزمین پر یکجاء ہوکر جدوجہد کررہے ہیں بالکل اسی طرح سےسیاسی طور پر بھی پوری شدت سے عالمی دنیا کے سامنے بلوچ قومی آواز پہنچانے کی کوشش جاری ہے۔ تو یقیناً عوام خود بخود اپنی خاموشی کو توڑتے ہوئے نہ صرف اپنی جدوجہد کو دوبارہ سے مزید دیدہ دلیری و بہتر انداز میں جاری رکھینگے بلکہ وہ ریاست کے اس ظلم و جبر کی کالی رات کو ہمیشہ کیلئے دفنا کر ایک روشن مستقبل کی خاطر مستقل جدوجہد کرنے کے جذبے کو زندہ رکھتے ہوئے قومی عمل کا حصہ بن کر اپنا قومی فریضہ ادا کرینگے۔ لیکن اولین شرط یہی ہوگی کہ ہم جو آزاد ہواؤں میں سانس لے رہے ہیں ہمیں اس آزادی کی قیمت و قدر کو سمجھتے ہوئے اپنی جدوجہد کو تیز سے تیزتر کرتے ہوئے بحیثیت بلوچ قومی پارٹی کے کارکنان، قومی ذمہ داریوں کو بہتر انداز میں سرانجام دینے کی اعلٰی مثال قائم کرنی ہوگی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔