آجو بات ئے مراد صالح – میرجان بلوچ

337

آجو بات ئے مراد صالح

تحریر: میرجان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

آج میں ایسے شخص کے بارے میں لکھنے کی کوشش کر رہا ہوں جس کے لیئے میرے پاس لکھنے کو الفاظ نہیں ہیں۔ پھر بھی کوشش کروں گا کہ اس شخص پر اپنے ناکافی الفاظ ہی لکھ دوں –

وہ ہے میرا مہربان دوست مراد بخش صالح محمد، جسے 28 جولائی 2015 کی رات پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی والوں نے گھر پر چھاپہ مار کر چھوٹے بھائی کے ہمراہ اٹھا کر لے گئے- چھوٹا بھائی دو سال بعد بازیاب ہوا لیکن مراد چار سال گذر جانے کے باوجود بھی بازیاب نہ ہوسکا۔

مراد بخش بچپن سے ہی ایک نہایت مہربان دوست اور تعلیم سے لیس شخص تھے- اسے بلوچی زبان سے بہت لگاؤ تھا اور وہ بلوچی زبان کے شاعر بھی تھے، وقت گذ رتا گیا میرے مہربان دوست کے والد صاحب ایک کار حادثے میں وفات پاگئے- والد کے گزر جانے کے بعد وہ گھر کا زمہ دار بن گیا- مجبوراً اسے گھر والوں کیلئے کچھ کرنا تھا، اس کے لئے وہ سمندر میں کاروبار کرنے لگا اپنے چھوٹے بھائیوں کیلئے دو وقت کی روٹی کماتا-

ایک دن اچانک یہ خبر پھیلی کہ گوادر میں پولیس میں بھرتی شروع ہوگیا ہے تو سب دوستوں نے مراد کو کہا “چلئے کاغذات جمع کرتے ہیں” اس طرح مراد نے باقی دوستوں کیساتھ پولیس بھرتی کیلئے اپنے ڈاکومنٹس جمع کئے، جس سے انٹرویو میں اس کا نام آیا اور کچھ دن بعد ہی انہیں کوئٹہ میں ٹریننگ کیلئے بیجھا گیا- نو مہینے لگاتار ٹریننگ مکمل کرنے کے بعد اس کا پوسٹنگ گوادر میں کیا گیا –

بس وقت چلتا رہا اور کبھی کبھار چھٹیوں کیلئے اپنے آبائی شہر پسنی آتا اور جب بھی وہ پسنی آتا تھا، میرے پاس ضرور آتا- ہم دونوں بلوچی زبان کے بارے میں بحث و مباحثہ کرتے کبھی وہ شعر شاعری کرتے- انہیں بلوچی پڑھنے اور لکھنے کا بہت شوق تھا-

کبھی کبھار ہم دونوں پسنی کے مشہور پکنک پوائنٹ “جڈی” جاتے تھے وہاں وہ بیٹھ کر سمندر کا لطف اٹھاتے تو کبھی مستانی ریت پر بیٹھ کر شعر پڑھتے۔ مراد بہت مختلف و بالا سوچ کے مالک تھے- اس نے اکثر ایسے شعر پڑھے جو میرے جیسے نابلد کے سمجھ سے بالاتر تھے- وہ ہر وقت اپنے شورش زدہ معاشرے کے بارے میں لکھتا تھا-

ہمارا معاشرہ ایک ایسا معاشرہ ہے جہاں ہر قسم کے لوگ آباد ہیں – منشیات کے عادی، عاشق مزاج، پاگل اور بیروزگار، لیکن میرا مہربان دوست بلکل ایسے معاشرے سے مختلف تھا اور بس اپنے زندگی میں مگن تھا-
27 جولائی کی شام گوادر سے آیا اور میرے پاس آکر ھم دونوں ھوٹل چلے گئے اور بحث و مباحثہ کیا- یہ دن تو ایسے گزر گیا لیکن دوسرے روز 28 جولائی 2015 کی رات کچھ وردی والوں نے میرے مہربان دوست کے گھر پر دھاوا بول دیا اور گھر میں موجود مراد بخش اور اسکے چھوٹے بھائی کو اغواء کرکے اپنے ساتھ لے گئے۔ اس وقت سے لیکر اب تک اس کا کوئی حال نہیں –

پتہ نہیں میرے دوست آپ کہاں اور کس حال میں ہو؟ میں ابھی بھی مستانی ریت اور جڈی کے کنارے بیٹھ کر آپکی وہ مسکراہٹیں سن رہا ہوں-


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں