بلوچ قومی تحریک اور پاکستانی ریاست – عاصم اخوند | مشتاق علی شان

444

بلوچ قومی تحریک اور پاکستانی ریاست

تحریر: عاصم اخوند
ترجمہ: مشتاق علی شان

دی بلوچستان پوسٹ

(نوٹ: 2007میں نوجوانی میں وفات پاجانے والے کامریڈ عاصم اخوند سندھ کے ممتاز مارکسی دانشور اور سیاسی مساعی پسند تھے، درج ذیل مضمون انھوں نے 2004میں سندھی زبان میں لکھا تھا، ڈاکٹر مبارک علی کی کتاب ”نیشنل ازم کیا ہے“کے لیے2014میں راقم نے اس کا سندھی سے اردو میں ترجمہ کیا۔مترجم)

عام طور پر ریاستی میڈیا پر بلوچوں کی ابھری ہوئی گوریلا جنگ کی تشریح یوں کی جا تی ہے جیسے پاکستان میں بلوچستان کی پسماندگی اور غیر ترقی یافتہ حقیقت بلوچوں کو مسلح جدوجہد کی طرف لیکر جا رہی ہو۔لیکن اس حقیقت پر بہت ہی کم تبصرہ کیا جاتا ہے کہ بلوچستان میں موجود پسماندگی دراصل پاکستان کے فوجی راج،پنجاب کی صنعتی ترقی اور عالمی سرمایہ داریت کا نتیجہ ہے۔

آج تیسری دنیا کے سارے سیاسی و سماجی نظاموں کی جو صورت ہے وہ عالمی سرمایہ دارانہ سامراجیت کی پیداوار ہے۔دوسرے لفظوں میں تیسری دنیا میں موجود قومی آزادی کی تحریکیں دراصل دنیا بھر میں موجود یورپی اور امریکی سامراجی شہنشاہیت کی ڈھالی ہوئی دنیا کے خلاف بغاوتیں ہیں۔یعنی کہ ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکا کے ممالک کے نقشے لندن، پیرس اورواشنگٹن کے مفادات کا اظہار کرتے ہیں۔حقیقت میں اگر تیسری دنیا عالمی سامراجیت کے غلبے اور قبضے سے آزاد ہوتی تو آج تیسری دنیا کے ممالک کے سماجی نظاموں اور سرحدوں کی ہیئت ہی کچھ اور ہوتی۔دراصل یہی بنیادی اصول ہے جس کے ذریعے آج بلوچستان،پختونخوا،سرائیکی خطے اور خود پنجاب کے سرحدوں کی ساخت اور ان کی پاکستانی ریاست میں موجودگی کی ترتیب کو سلجھایا جا سکتا ہے۔

1947میں نمودار ہونے والی پاکستانی ریاست بلوچستان، پختونخوااور پنجاب کا میکانیکی تعلق ہے۔انسان اور انسانی سماج اسی وقت ارتقا اور نشوونما کر سکتے ہیں جب وہ تاریخی اور عضویاتی(ORGANICALLY)طور پر ایک دوسرے کے ساتھ پائیدار رشتے میں مربوط ہوں۔یہی حقیقت ایک انسانی جسم اور مشین کو ایک دوسرے سے الگ کرتی ہے۔لیکن پاکستانی ریاست کا ابھار تاریخی طور پر نہیں بلکہ عالمی سامراجی مفادات کا نتیجہ ہے۔موجودہ پاکستان دوسری عالمگیر جنگ کے دوران ایک طرف انگریز شہنشاہیت کی طرف سے پنجابی فوج کے کردار ادا کرنے کی عنایت ہے تو دوسری جانب یہ سوویت یونین اور چین کے سوشلسٹ انقلابات کے اثرات سے ہندوستان کے بچائے رکھنے کی سامراجی حکمتِ عملی ہے۔پاکستان کی تاریخ سندھ، پختونخوا اور بلوچستان کے اس ریاست سے انکار کی تاریخ ہے۔اس ریاستی ڈھانچے پر تنقید سندھ نے سیاسی شکل میں،پختونخوا نے فوجی راج میں شامل ہو کر اسے تبدیل کرنے کے روپ میں اور بلوچستان نے مسلح جدوجہد کی صورت میں مسلسل کی ہے۔البتہ یہ اور بات کہ سندھ، پختونخوا اور بلوچستان میں موجود بالائی طبقات اپنے قومی مفادات کی نفی کرتے ہوئے فوجی راج سے صلح و مفاہمت کرتے رہے ہیں۔

پاکستانی ریاست کی تشکیل کے ابتدائی مراحل سے ہی بلوچستان وہ خطہ رہا ہے جو اس ریاستی راج کے سامراجی کردار کو عیاں کرتا ہے۔دوسرے لفظوں میں اگر بلوچستان کی تاریخ کے پاکستانی دور کا مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ پاکستانی ریاست کا کردار سامراجی ریاست کے دفاع اور تسلط کو قائم رکھنے کا رہا ہے۔بلوچستان کی کسی بھی آئینی اسمبلی نے انگریز راج کے خاتمے کے وقت پاکستان میں شامل ہونے پر رضامندی ظاہر نہیں کی تھی بلکہ اس کے برعکس بلوچستان کو فوج کے ذریعے پاکستان کے ریاستی ڈھانچے میں جبری طور پر شامل کیا گیا۔اس لیے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ بلوچستان پاکستان کی ایک نوآبادی ہے اور یہی وجہ ہے کہ بلوچ قومی آزادی کی تحریک سب سے زیادہ سخت صورت میں پاکستانی فوجی راج کے ساتھ تضاد میں آئی ہے۔لیکن وہ کون سے عوامل ہیں جن کے باعث بلوچستان کی قومی آزادی کی تحریک نتیجہ خیز مرحلے میں داخل نہیں ہوتی؟آئیے اس مسئلے کو سلجھانے کے لیے بلوچستان کے سماجی ڈھانچے اور بلوچستان کی تاریخ میں انگریز راج اور پاکستانی راج کے ادوار کا جائزہ لیں۔

بلوچستان- برطانوی راج اور جدید قومی شعور کا ارتقا:
جدیدسرمایہ دارانہ دور سے قبل بلوچستان کی مخصوص سماجی ہیئت اس خطے کے فطری ماحول اور ماحولیاتی ساخت سے مربوط تھی۔بلوچستان میں پانی کے ذخائر کی کمی اور پہاڑی علاقوں کے سبب فصل کم ہوتی تھی۔یہی وجہ تھی کہ آبادی کا زیادہ تر حصہ گلہ بانی سے وابستہ تھا اور خانہ بدوشی یا نیم خانہ بدوشی کی زندگی بسر کر رہا تھا۔جبکہ قبیلے کا سردار کسی بھی معنی میں موجودہ جاگیر دار کی طرح نہیں تھا کیونکہ بلوچستان میں ملکیت دراصل ابتدائی نوعیت کی قبائلی مشترکہ ملکیت کی صورت رکھتی تھی۔دوسرے لفظوں میں ابھی ذاتی ملکیت بڑے پیمانے پر نہیں ابھر سکی تھی۔

بلوچستان کی دشوار جغرافیائی حالت کے سبب مختلف قبائل کے درمیان جھگڑے بھی ہوتے رہتے تھے جس کی وجہ سے بیرونی حکمرانوں کے لیے بلوچستان کو فتح کرنا ہمیشہ دشوار عمل رہا ہے۔سندھ کے مقابلے میں بلوچستان کی کمزور زراعت کے باعث اس کی الگ ریاستی شکل نہیں رہی جبکہ سندھ میں جاگیردارانہ نظام کی وجہ سے یہاں ایک ریاستی شکل اپنا وجود رکھتی تھی۔یہی وجہ ہے کہ بلوچ قومی تحریک اپنی نشوونما کے بہت سے مراحل طے نہیں کر سکی۔

کامریڈ لینن ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ”وہ ملک جس کے اطراف میں بڑی سامراجی طاقتیں موجود ہوں وہ اکثر اپنی قومی خود مختاری اور اقتدارِ اعلیٰ کھو دیتے ہیں۔“ چونکہ بلوچستان کی جغرافیائی ساخت بھی کچھ اسی طرح کی ہے جس کے باعث بلوچستان الگ الگ سامراجی ممالک کی لڑائی کی وجہ سے اپنا قومی ریاستی ارتقا نہیں کر سکا اور اس طرح اپنا اقتدارِ اعلیٰ بھی کھوتا رہا ہے۔

بلوچستان اور سندھ کی انگریزوں کے ہاتھوں فتح،فرانسیسی،روسی اور برطانوی شہنشاہیت کی لڑائی کا نتیجہ تھی۔ افغانستان وہ تجارتی راستہ تھا جو وسطی ایشیا اور ہندوستان کو جوڑتا تھا یوں اس خطے میں انگریزوں کے مفادات نے سندھ اور بلوچستان کی فتح کا جواز پیدا کیا۔

افغانستان اور وسطی ایشیا کی ریاستوں کے حصول کی جنگ برطانوی سامراج کے لیے کافی دشوار ثابت ہوئی۔کیونکہ افغان قبائل کی جنگجو سماجی ساخت اور روسی شہنشاہیت کی طرف سے ان کی حمایت نے انگریز فوجوں کو تھکا دیا۔ یہ تھی وہ صورتحال جس میں انگریزوں نے سندھ اور بلوچستان کے حکمرانوں کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کو توڑتے ہوئے ان پر فوج کشی کی۔بلوچستان کی پہلی جدید قومی تشکیل کا عمل انگریز سامراج کے ساتھ لڑائی کے عمل میں نمودار ہوا۔پہلے دائرے میں انگریز فوج سے مختلف قبائل نے الگ الگ انداز میں جنگ کی۔لیکن انگریز سامراج جیسی جدید سرمایہ دار طاقتور فوج سے جنگ کرنا سماج کو ایک کرنے اور جوڑنے سے ہی ممکن تھی اور یہی وہ حقیقت تھی جو مختلف بلوچ قبائل کو ایک دوسرے کے قریب لائی۔اس حقیقت کی گواہی 1845میں مری اور بگٹی قبائل کی مشترکہ جنگ سے بھی ملتی ہے۔

جس دور میں انگریز سامراج نے سندھ اور بلوچستان تک رسائی حاصل کی اس سے کافی پہلے انگریز ہندوستان کی بہت سے اقوام کو فتح کر چکے تھے۔انگریزوں کو یہ تجربہ بھی حاصل ہو چکا تھا کہ اگر کسی قوم کو جدید صنعتی ترقی دی تو وہ قوم اس کے راج کے لیے موت ثابت ہو گی۔انھیں اس حقیقت کا تجربہ بنگال میں ہو چکا تھا۔برطانوی سامراج کی یہ سماجی چھان پھٹک اسے مختلف بلوچ قبائلی سرداروں کے ساتھ صلح کی طرف لے گئی اور انھوں نے ”تقسیم کرو اور حکومت کرو“ کی حکمتِ عملی کو قبائلی صورت میں استعمال کیا۔المیہ یہ ہوا کہ بلوچوں کی قومی تشکیل کے عمل کے سلسلے کا سب سے بڑا دشمن اس کا قبائلی نظام ہی ثابت ہوا اوریوں بلوچستان متعدد ٹکڑوں میں تقسیم ہو گیا۔آج بلوچستان کی افغانستان، ایران اور پاکستان میں تقسیم شدہ صورت انگریز سامراجیت ہی کا تسلسل ہے۔

بلوچستان کے زیادہ حصے پر انگریزوں کا قبضہ ان معاہدوں کے تحت طے ہوا جن کا1854،1876اور 1879میں قلات اور کابل کے حکمرانوں پر اطلاق ہوا تھا۔ برطانوی راج کے تحت موجودہ بلوچستان کا حصہ تین ٹکڑوں میں تقسیم کیا گیا۔(1)برطانوی بلوچستان(2) ایجنسیوں کا علاقہ (3) قلات، خاران، مکران اور لسبیلہ کا وفاق جن کا قائد خان آف قلات تھا۔

بلوچستان پر انگریزوں کے قبضے نے پرانے سماجی ڈھانچے کی شکست و ریخت اور سرمایہ دارانہ نظام کی تشکیل کے عمل کو تیز کیا۔انگریز سامراج نے اس حقیقت کاادراک کرتے ہوئے ایک نئے نوعیت کے ایسے طبقاتی سماج کی طرح ڈالی جس میں بلوچوں کی جدید قومی تشکیل کا عمل رک گیاالبتہ تاریخ کی معروضی منطق بلوچوں میں جدید قومی شعور کی نشوونما کرتی رہی۔

انگریز راج نے بلوچستان کے معدنی ذخائر دریافت کیئے جس کے نتیجے میں کانوں میں کام کرنے والے پرولتاری طبقے کا جنم ہوا۔اسی سلسلے میں انھوں نے ٹیلیگراف اور ریلوے لائنیں تشکیل دیں اور مکران،گوادر اور پسنی کی بندر گاہوں کو جدید خطوط پر استوار کیا۔اس کے علاوہ زراعت میں منڈی کی بنیاد پر کاشتکاری بھی عمل میں آئی۔اس سارے سلسلے نے بلوچ آبادی کی شہروں کی طرف منتقلی کے عمل کو تیز کیا لیکن انگریز سامراجیت نے اس سارے عمل کو روکنے کے لیے بھی بہت سے نئے جال بُنے۔انگریز راج کے تحت انتظامی نظام میں بلوچوں کی موجودگی کم تھی اور انگریزوں نے پنجابیوں اور پختونوں کے ذریعے بلوچوں پر راج کیا۔اُس وقت کے کوئٹہ شہر میں زیادہ تعداد بیرونی آبادی کی تھی اور بلوچ شہروں میں نہ ہونے کے برابر تھے۔

انگریز سامراج نے اپنے راج کو تقویت دینے کے لیے بڑے جاگیردارانہ جرگہ سسٹم کو جنم دیا۔جرگے کے نظام کو 1876میں خان اور سرداروں کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت قانونی حیثیت دی گئی۔ یعنی کہ انگریز شہنشاہیت نے بلوچوں کی قومی آزادی کی تحریک کو روکنے اور بلوچستان کی لوٹ کھسوٹ کے سلسلے میں اپنا نوآبادیاتی نظام تشکیل دیا۔آج کے دور میں نظر آنے والی جرگے کی روایات نہ بلوچوں اور نہ ہی سندھیوں کی پیداوار ہیں بلکہ اس کے برعکس یہ سامراجیت کے ظلم و جبر پر مبنی نظام کی علامتیں ہیں۔

بلوچستان میں سرمایہ دارانہ نظام کے ارتقا نے بلوچ قومی شعور کی نشوونما کے عمل کو تیز کیا۔ بلوچی زبان میں موجود داستانوں اور قصوں کو آہستہ آہستہ اشاعت کی دنیا میں برپا ہونے والے انقلاب کے بعد تحریری شکل میں لایا گیا۔لیکن قومی شعور کی نشوونما کا عمل انتہائی سست رہا۔بلوچستان میں سرمایہ دارانہ رشتوں کے قیام کے ساتھ ہی بورژوا معاشرے کے طبقے بھی وجود میں آنے لگے۔لیکن بلوچوں کی ایک بدقسمتی یہ تھی کہ اسکولوں میں تدریسی عمل اردو، پنجابی اور انگریزی زبان میں تھا۔اس صورتحال کے باوجود بلوچ ادیبوں اور دانشوروں کی تشکیل ہونے لگی اور قومی زبان کی جدوجہد بھی ابھرنے لگی۔ یوں بلوچستان میں دھیرے دھیرے جدید سیاسی تنظیموں کے خدوخال واضح ہونے لگے اور1937میں ”قلات اسٹیٹ نیشنل پارٹی“ کا جنم ہوا۔

اس سارے ارتقائی سلسلے کے دوران جس حقیقت نے بلوچستان کے سماج پر گہرے اثرات مرتب کیے وہ1917کو روس میں برپا ہونے والا سوشلسٹ انقلاب تھا اور اسی سلسلے نے پاکستان کے جنم کی بھی بنیاد رکھی۔ بلوچستان میں ”کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا“ کی تیزی سے نشوونما ہوئی اور اس کے ساتھ ساتھ بلوچستان میں مزدور پارٹی کی تشکیل ہوئی جس نے 1941میں مزدوروں کا عالمی دن ”یومِ مئی“ منایا گیا۔ 1917کے بالشویک انقلاب کے اثر ات نے بلوچ سرداروں میں برطانوی راج سے لڑ نے کی قوت پیدا کی اور متعدد سرداروں نے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا میں شمولیت اختیار کرلی۔اس حقیقت کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ میر غوث بخش بزنجو 1937میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے ممبر بنے۔بلوچستان میں جدید قومی شعور کے ارتقا کے عمل میں سندھ کا سماج بھی معاون ومددگار رہا ہے۔جدید بلوچ قومی عالم اور دانشور طبقہ بھی بلوچستان کی بجائے سندھ کے شہروں میں ابھرا۔

تقسیمِ ہند سے قبل بلوچستان میں خان آف قلات کی ایک الگ ریاست موجود تھی اور یہ ایک عجیب حقیقت ہے کہ مسلم لیگ اور انڈین نیشنل کانگریس دونوں ہی بلوچستان میں نہ ہونے کے برابر تھیں۔جب انگریز اور امریکی سامراج کی حکمتِ عملی کے تحت پاکستان کی تشکیل عمل میں آئی تو خان آف قلات نے پاکستان کے ساتھ برادرانہ تعلقات رکھنے کی بات کی نہ کہ اس میں شامل ہونے کی۔امریکی سامراج کے جلو میں پاکستانی ریاست بلوچستان میں سوویت سوشلسٹ انقلاب کے زیر اثر سوشلسٹ تحریکوں کی نشوونما کو روکنے کے لیے اسے آزاد دیکھنا نہیں چاہتی تھی۔

پاکستانی ریاست اور بلوچستان:
1947میں قیام پاکستان سے ایک سال قبل خان آف قلات نے انگریزوں کو نیپال کی مثال دیتے ہوئے ایک آزاد ریاست کا مطالبہ کیا تھا۔جبکہ قلات کی قومی پارٹی کے ممبران بھی اس رائے سے متفق تھے۔1947میں قیام ِ پاکستان کے 24گھنٹے بعد خان آف قلات نے قلات کی آزاد ریاست کا اعلان کر دیا تھا لیکن ایک سال کے بعد یعنی1948میں پاکستانی فوج نے خان آف قلات کو پاکستان کے ساتھ شمولیت کے معاہدے پر مجبور کر دیا۔

پاکستانی تاریخ کے ہر لمحے میں بلوچوں نے پاکستانی ریاست کے فوجی افسر شاہانہ نظام کی مخالفت کی ہے۔ یہی سبب ہے کہ 1948سے ون یونٹ کے لاگو رہنے تک بلوچستان میں مارشل لاء لگا رہا۔ جب مغربی پاکستان میں بنگال کی جمہوری جدوجہد کے خلاف ون یونٹ تشکیل دیا گیا تو بلوچوں نے اس عمل کے خلاف شدید احتجاج کیا لیکن ان کے احتجاج کی گونج اسلام آباد کے ایوانوں میں کوئی ارتعاش پیدا نہ کر سکی اور مجبوراَ 1959میں نوروز خان کی قیادت میں بلوچوں نے مسلح جدوجہد کا آغاز کیا۔ اس بغاوت کو فوجی آمروں نے دھوکے سے ناکام بنا دیا اوربہت سے گوریلا جنگجوؤں کو جیلوں میں ڈال دیا گیا۔ ون یونٹ کے دور کے خلاف بلوچستان میں موجود نفرت نے 1970کی دہائی میں ”نیشنل عوامی پارٹی“(نیپ) کی شکل میں اپنا اظہار کیا۔ بلوچستان کی ایک بدقسمتی یہ بھی ہے کہ شہروں میں بیرونی آبادکاری کے باعث ان کی سیاسی تحریک مضبوط نہیں رہی جبکہ قبائلی سرداروں کی اپنی اپنی الگ سیاسی جماعتیں ان کے مشترکہ قومی مفادات کا تحفظ کرنے کی اہل نہیں رہی ہیں۔

سندھ اور بنگال اُس دور میں ایسی سیاسی قوتیں رہی ہیں جنھوں نے پاکستان میں موجود قومی تحریکوں کو جدید انداز میں جینا اور چلنا سکھایا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ 1956میں وجود میں آنے والی ”نیپ“ بلوچستان کے گوریلوں کی سیاسی آواز بنکر ابھری۔”نیپ“ یعنی نیشنل عوامی پارٹی مندرجہ ذیل سیاسی تنظیموں کا اتحاد تھی۔
(1) پرنس عبدالکریم اور میر غوث بخش بزنجو کی ”استمان گل پارٹی“
(2)حیدر بخش جتوئی کی ”سندھ ہاری کمیٹی“
(3)جی،ایم،سید کی”سندھ متحدہ محاذ“
(4)خان عبدالغفار خان کی ”خدائی خدمت گار تحریک“
(5)خان عبدالصمد خان کی”ورور پشتون پارٹی“
6)میاں افتخار الدین کی”آزاد پاکستان پارٹی“
(7) مولانا بھاشانی کی”مشرقی پاکستان عوامی لیگ“

ون یونٹ کے خلاف ”نیپ“ کی شاندارجدوجہد 1968میں ون یونٹ کے خاتمے پر منتج ہوئی اور 1970میں ہونے والے انتخابات میں بلوچوں کی اکثریت نے”نیپ“ کو ووٹ دیکر کامیاب کیا۔ بلوچستان میں یہ ’نیپ“ ہی کی پہلی حکومت تھی جس نے بلوچوں کی نمائندگی کی تھی۔

پاکستان اور ہندوستان کے درمیان 1971میں ہونے والی جنگ کے نتیجے میں بنگلہ دیش کے قیام کے بعد پیپلز پارٹی دراصل نیپ کی متبادل سیاسی قوت کی حیثیت سے فوجی راج کی حمایت یافتہ سیاسی جماعت بنکر ابھری۔یہ دراصل پیپلز پارٹی کی صورت میں فوجی راج کی مظلوم قوموں اور طبقوں کی جدوجہد کو کچلنے کے لیے سماج کے ساتھ صلح تھی۔ اصل میں ذوالفقار علی بھٹو نے نہایت ہی چالاکی سے بلوچستان میں موجود ”نیپ“ کی حکومت کو ریاستی فوج کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا اور اس کے ساتھ ساتھ بلوچستان میں موجود مختلف قبائلی سرداروں کو مراعات دیکر فوج کے مفادات کی تکمیل کی کوشش کی۔اسی دور میں بلوچستان میں بڑھتی ہوئی سوشلسٹ تحریک سرداروں کو مجبور کر رہی تھی کہ وہ پاکستان سے الگ ہو کر آزاد بلوچستان کی تشکیل عمل میں لائیں۔ یاد رہے کہ 1967میں قائم ہونے والی ”بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن“(BSO)کا بلوچستان میں مارکسزم کے پھیلاؤ میں انتہائی اہم کردار رہا ہے۔

پیپلز پارٹی کی حکومت جمہوری طریقے سے بلوچوں کو راضی کرنے میں ناکام رہی تو پاکستانی ریاست کی اصل طاقت یعنی فوج نے بلوچستان میں 1973کے فوجی آپریشن کا آغاز کیا۔ دراصل یہ آپریشن امریکی سامراج، ذوالفقار علی بھٹو،آرمی اتحاد اور ایران کے رضا شاہ پہلوی کی مشترکہ حکمتِ عملی تھی۔کیونکہ بلوچستان میں سوویت یونین کابڑھتا ہوا اثر امریکی سامراجیت کے لیے خطرناک قوت کے طور پر ابھر رہا تھا۔

اسی دور میں گوریلا تنظیم”بلوچستان پیپلز لبریشن فرنٹ“(BPLF)کاقیام عمل میں آیا۔یہ گوریلے جنگی حکمتِ عملی کے لیے لاطینی امریکا کے معروف کمیونسٹ گوریلا لیڈر چے گویرا کی تحریروں سے استفادہ کرتے تھے۔لیکن اس گوریلا جنگ کی حد بندی یہ تھی کہ قبائلی سماج میں سیاسی شعور کے فقدان کے باعث یہ محنت کش عوام سے خود کو نہیں جوڑ سکی۔ پانچ سال تک جاری رہنے والی اس گوریلا جنگ کو ناکام بنانے میں بلوچ سرداروں نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی اور یہ سلسلہ موجودہ دور تک جاری ہے۔(یہ تحریر 2004 میں لکھی گئی ہے۔مترجم)
بلوچستان کی تاریخ میں ضیاء الحق کے دور میں سارے سرداروں نے اس کی فوجی آمریت کی حمایت کی۔یہ سردار 1973میں ہونے والی جنگ کی نشوونما سے خوفزدہ ہو گئے تھے کیونکہ اس گوریلا جنگ کی قوت کو سوویت یونین کی حمایت حاصل تھی اور یہ آخری نتیجے میں سردار دشمن تھی۔

موجودہ دور میں بلوچستان کے ذرائع اور وسائل کی لوٹ کھسوٹ میں پاکستان کے اندر بلوچوں کی کمزور سیاسی صورتحال ناگزیر طور پر بلوچوں کو مسلح ہونے پر مجبور کر رہی ہے۔ لیکن اس ساری تحریک میں عوام کی حمایت و تائید کے حامل ایک سیاسی تنظیم کا فقدان اس تحریک کو بلوچ سرداروں کی پاکستانی ریاست کے ساتھ صلح و مفاہمت میں بھی تبدیل کر سکتی ہے۔

آج کے بلوچستان میں جو بنیادی مسائل موجود ہیں ان میں سب سے اہم مسئلہ بیرونی آبادکاری، چھاؤنیوں کا قیام، گیس اور دیگر وسائل کی لوٹ کھسوٹ اور گوادرپورٹ پر بیرونی طاقتوں کا قبضہ ہے۔ گوادر پورٹ کا منصوبہ ایک طرف چین کے معاشی مفادات کا اظہار کر رہا ہے تو دوسری جانب امریکی سامراج کی فوجی حکمتِ عملی کے طور پر یہ ایک اہم بندرگاہ ہے۔ پاکستانی ریاست کا بلوچستان کے ذرائع کی مسلسل لوٹ کھسوٹ یعنی پنجاب کی صنعتی ترقی اور سامراجی کمپنیوں کا راج بلوچستان کی شدید مزاحمت کو کچلنے سے ہی ممکن ہے۔ اس سلسلے میں بلوچستان میں نئی چھاؤنیوں کا منصوبہ بنایا گیا۔ اس ساری صورتحال میں سندھ،بلوچستان اور پختونخوا مسلسل ابتر سے ابتر حالت میں جا رہے ہیں۔

آخر حل کیا ہے؟
دراصل سندھ، بلوچستان اور پختونخوا کی پاکستانی ریاست پر مختلف انداز میں موجود تنقید کی قوت کو یکجا کرنے کی ضرورت ہے۔لیکن اتحاد ایسی قوتوں کا ہونا چاہیے جو محنت کش طبقے کی نمائندہ قوتیں ہوں اور اسی طرح جھوٹے ریاستی راج کو ماضی کی حقیقت میں بدلا اور تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ خود بلوچستان کی ناکامی اس کی سیاسی عوامی قوت کی عدم موجودگی ہے۔ بلوچستان کی نجات بھی اسی وقت ممکن ہے جب بلوچستان کی امداد میں دیگر مظلوم قومیں سیاسی قوت کی صورت میں اس کا ساتھ دینے اور رہنمائی کا کردار ادا کر سکیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔