بلوچ ہیومین رائٹس آرگنائزیشن کے مرکزی ترجمان نے پاکستان آرمی کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر جنرل میجر آصف غفور کے بیان پر ایک اخباری بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ ریاست کے ذمہ دار ادارے اس بات کا اعتراف کئی بار کرچکے ہیں کہ لاپتہ افراد ریاست کے پاس ہے اور انہیں قانونی عمل سے گزارنے کے بعد منظر عام پر لایا جائے گا ۔ عسکری ادارہ بلوچستان سے ماورائے عدالت گرفتار لوگوں کی تعداد متعلق بھی بتائیں اور جس قانونی عمل سے ماورائے عدالت گرفتار افراد کو گزارا جارہا ہے اس کی بھی وضاحت کریں کہ کس قانون کے تحت لوگوں کو لاپتہ کیا جارہا ہے اور وہ کونسا قانونی عمل ہے کہ لاپتہ افراد نہ منظر عام میں لائے جاتے ہیں اور نہ ہی انہیں عدالتوں میں پیش کیا جاتا ہے بلکہ آئین و قانون کے برخلاف عمل سے گزارا جاتا ہے اور انسانیت سوز تشدد کے بعد انہیں لاش کی صورت میں منظر عام میں لایا جاتا ہے۔
بلوچستان سے بلوچ سیاسی کارکنان سمیت، سوشل ایکٹیوسٹ، مزدور، کسان، طالب علم اور دیگر طبقہ فکر کے لوگ آٹھ دس سالوں سے لاپتہ ہیں اور ان کے اہلخانہ کئی عرصوں سے وائس فار بلوچ مِسنگ پرسنز اور بلوچ ہیومین رائٹس آرگنائزیشن کے پلیٹ فارم سے اپنے پیاروں کی عدم بازیابی کے خلاف پر امن احتجاج کررہے ہیں لیکن ان دس سالوں میں بلوچستان کے کسی بھی لاپتہ افراد کو عدالت میں پیش کرنے کے بجائے غیر قانونی طور پر اذیت ناک مراحل سے گزارا گیا۔ انہی لاپتہ افراد میں سے سات ہزار سے زائد لوگوں کو ماورائے عدالت قتل کرکے لاشوں کو اجتماعی قبروں میں دفنایا گیا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ سمی بلوچ، سیما بلوچ، علی حیدر بلوچ، فرزانہ مجید بلوچ اور دیگر کئی بلوچ مائیں بہنیں مسلسل احتجاج کے دوران یہ کہتی نظر آتی ہیں کہ اگر ہمارے پیاروں نے کوئی جرم کیا ہے تو انہیں عدالتوں میں پیش کرکے آئین و قانون کے مطابق سزا دی جائے لیکن ریاستی اداروں نے آج تک بلوچستان سے ماورائے عدالت گرفتار ہونے والے کسی بھی فرد کو عدالتوں میں پیش نہیں کیا اور نہ ہی قانون و آئین کے مطابق عمل کیا۔
ریاست کے ذمہ ادارے مختلف بیانات کے ذریعے یہ بات کہہ چکے ہیں کہ ملک میں لاپتہ افراد کا مسلئہ کافی حد تک حل ہوچکا ہے لیکن اس کے برعکس بلوچستان میں سکیورٹی فورسز کی جانب سے لوگوں کو بڑے پیمانے پر لاپتہ کیا جارہا ہے جو ریاستی دعوؤں کے برعکس ہے۔
ترجمان نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ بلوچستان میں لاپتہ ہونے والے افراد کے اہلخانہ لاچار و مجبور زندگی گزار رہے ہیں اور اپنی زندگی کے بیشتر سال اپنے پیاروں کی بازیابی کے لئے احتجاج میں گزار رہے ہیں لیکن ریاستی ادارے انکی آواز سننے کے بجائے انہیں دبانے کی کوشش کررہے ہیں۔ اگر واقعی ریاست کے ذمہ دار ادارے بلوچستان سے لاپتہ ہونے والے افراد کے دکھ درد کو سمجھتے ہیں تو انہیں چاہیئے کہ وہ عملی طور پر بلوچستان کے لاپتہ افراد کو منظر عام پر لائیں اور بلوچستان سے لوگوں کو لاپتہ کرنے میں ملوث لوگوں کو کیفر کردار تک پہنچائیں۔
ترجمان نے بیان کے آخر میں ریاست کے ذمہ دار اداروں سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں لوگوں کی ماورائے عدالت گرفتاری سنگین مسئلہ ہے۔ اس مسلئہ کو حل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہنگامی بنیادوں پر بلوچستان میں ماورائے عدالت گرفتاری کا سلسلہ بند کیا جائے اور سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ماورائے عدالت گرفتار لوگوں کو آئین و قانون میں تقویض حقوق کے مطابق عدالتوں میں پیش کیا جائے تاکہ اہلخانہ میں جو پریشانی اور اضطراب پایا جاتا ہے وہ ختم ہو اور بچے اور بچیاں اپنے مستقبل حوالے مزید پریشانیوں کا شکار نہ ہو۔