ہائی کمانڈ یا فرد واحد کی مطلق العنانیت – شہیک بلوچ

265

ہائی کمانڈ یا فرد واحد کی مطلق العنانیت

تحریر: شہیک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

امریکہ کی بلوچ قومی تنظیم بی ایل اے پر پابندی کے بعد تنظیم کی جانب سے وضاحت اور پالیسی بیان سمیت بی ایل ایف کی جانب سے بھی بلوچ موقف کو شائستگی سے عالمی دنیا بالخصوص امریکہ کے سامنے رکھنے کی کوشش کی گئی۔ ڈاکٹر اللہ نذر کی جانب سے ٹرمپ کو لکھی جانیوالی خط بھی دلچسپی کا توجہ بن گئی، ان تمام کوششوں کا مقصد بلوچ قومی تحریک پر لگنے والے بے بنیاد الزامات کو رد کرتے ہوئے حقیقی صورتحال کو سامنے لانا تھا۔ بقول ڈاکٹر اللہ نذر کہ اگر امریکہ کی جنگ آزادی کے لیے لڑنے والا دہشتگرد نہیں ہوسکتا تو پھر بلوچ حریت پسند کس بنیاد پر دہشت گرد قرار دیے جاسکتے ہیں؟
دوئم یہ نقطہ نہایت اہم تھا کہ جس قانون کو جواز بنایا گیا ہے اس کے تحت امریکہ کے خلاف لڑنے والی تنظیمیں دہشتگرد قرار پاتی ہیں جبکہ بلوچ قومی تنظیموں بالخصوص بی ایل اے نے کبھی کسی امریکی مفاد کو نقصان نہیں پہنچایا تو اس قانون کا لاگو کس بنیاد پر بی ایل اے جیسی قومی نمائندہ ذمہ دار تنظیم پر کیا جاسکتا ہے؟

امریکی فیصلے کا کوئی بھی قانونی یا اخلاقی جواز نہیں بنتا کیونکہ بلوچ قومی تنظیمیں نوآبادیاتی نظام کے خلاف بلوچ قومی آزادی کی جدوجہد کو جاری رکھے ہوئے ہیں جبکہ دوسری جانب اگر دہشتگردی کی قانون کا لاگو قابض ریاست پر کیا جائے جو جبر کا ہر حربہ استعمال کرتا آرہا ہے۔ مسنگ پرسنز، مسخ شدہ لاشیں، جیٹ بمبارمنٹ، بستیوں کو آگ لگانا، ناکہ بندی، تعلیمی اداروں کی فوجی بیرکوں میں تبدیلی، معاشی جبر اور حتی کے چاغی میں ایٹمی تجربوں کی تباہکاریاں ان سب میں ملوث ریاست کو جس طرح نظر انداز کیا گیا وہ نہایت ہی شرمناک ہے۔
دوسری جانب نہایت افسوسناک ردعمل فرد واحد کی جانب سے آزاد بلوچ کے نام نہاد ہائی کمانڈ کی صورت میں سامنے آیا جس میں نہایت ہی پرفریب طریقے سے بلوچ قومی جدوجہد کو بدنام کرنے کے لیے اپنے مکروہ کردار کو واضح کیا گیا۔ پہلے تو آزاد صاحب نے امریکہ کے فیصلے پر سوالیہ نشان اٹھایا لیکن آگے چل کر خود ہی امریکہ کے فیصلے پر بی ایل اے کے کاروائیوں کو جواز بنا کر سرٹیفیکٹ تھما دیا۔

یہ بیان حب علی کی بجائے بغض معاویہ میں دیا گیا تھا۔ آزاد نے حتی الوسع یہ کوشش کی کہ سارا الزام شہید استاد اسلم اور بشیرزیب کے کھاتے میں ڈال کر خود بری الذمہ ہوجائیں لیکن قومی تحریک کے گاڈ فادر ہونے کا دعوی کرنے والے فرد واحد نے آج تک کسی بھی قومی ذمہ داری میں خود کو قصور وار تسلیم کرنے کی بجائے اسی طرح منفی طریقہ کار سے تحریک کو نقصان ہی پہنچایا ہے۔

محض ایران کے خلاف ہونے سے اگر کوئی امریکی حمایت حاصل کرسکتا ہے تو یہ نہایت مضحکہ خیز خیال ہے، “جیش العدل” کو کس جرم کی پاداش میں کالعدم قرار دیا گیا؟
ایران کی پروکسی کا لفظ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ بلوچ قومی تحریک کو لے کر فرد واحد کی سنجیدگی کس سطح کی ہے۔ کون سی ایسی واحد مثال ہے جہاں کسی پروکسی نے اپنی اولاد کو سب سے پہلے فدائی حملہ کے لیے بیجھا ہو؟ حیرت ہے یہ الزام وہ لگا رہے ہیں جو خود اپنے خاندان سمیت کمفرٹ زون میں بیٹھے ہوئے ہیں اور جنہوں نے اپنی غیر ذمہ دارانہ رویوں کے باعث ایک منظم تحریک کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا تھا۔ استاد اسلم بلوچ یا بشیر زیب کو عزت مآب نے جس غیر انقلابی طریقہ کار سے دیوار سے لگانے کی کوشش کی اس کے خلاف تنظیم کے ساتھیوں سمیت دیگر آزادی پسند تنظیموں نے بھی ایسے مطلق العنان قبائلی رویے کو مسترد کرتے ہوئے استاد کا ساتھ دیا تھا اور استاد نے بکھری ہوئی قوتوں کو دوبارہ یکجا کرکے دکھا دیا لیکن اس دورانیہ میں اپنی غلطی کا اعتراف کرنے کی بجائے آپ مزید ہٹ دھرمی کا شکار ہوچکے ہیں۔ اگر آپ فدائی حملوں کے خلاف ہیں تو یہی ردعمل شہید درویش کو لے کر کیوں ظاہر نہیں کیا گیا؟
آپ جس کردار کو لے کر اپنی محدود ذہنیت کا اظہار کررہے ہیں وہ امر ہوچکا ہے۔ وہ قربانی کی ایک لازوال داستان بن چکا ہے، استاد کی کردار کشی کرکے آپ صرف دشمن کو خوش کرسکتے ہیں( جو بظاہر نظر آرہا ہے) لیکن اس طرح بلوچ قومی تحریک میں آپ کوئی قابل احترام مقام پالینگے یہ آپ کی غلط فہمی ہی ہوگی۔

بلوچ فرزندوں کا جذبہ اب فدائی حملوں تک پہنچ چکا ہے یہ بلوچ فرزندوں کا شعوری اختیار ہے اور وہ اس جنگ کو اب کسی صورت بڑے ناموں کے لیے نہیں لڑینگے بلکہ عظیم وہی ہوگا جو عظیم کردار ادا کریگا۔ بلوچ فدائین کے تمام حملے کسی صورت بیرونی قوتوں کی سازش قرار نہیں دی جاسکتی بلکہ یہ بلوچ نوجوانوں کا نیا عزم ہے اور رہبر استاد اسلم کا فکر کے بلوچ کو اپنی نجات کے لیے اس انتہاء تک جانا ہوگا تاکہ دشمن ریاست پاکستان اور چین کو اندازہ ہونا چاہیے کہ مدمقابل ایک قومی تحریک سے وابسطہ پڑا ہے وگرنہ آپ کی پالیسیوں نے بلوچ کو ماسوائے نقصان کے اور کیا دیا؟

بابا مری، ڈاکٹر اللہ نذر، براہمدغ بگٹی ، مہران مری، جاوید مینگل اور آخر میں استاد اسلم و بشیر زیب سمیت تمام جہدکار قصور وار ٹہرے لیکن ان کو قصور وار ٹہرانے کا مقصد صرف اور صرف فرد واحد کے متنازع کردار کو صاف کرنے کی ایک ناکام کوشش تھی۔ اگر آپ واقعی کرشماتی ہوتے تو آپ دوسروں پر الزام لگانے کی بجائے اپنا کردار ادا کرتے اور بلوچ قومی تحریک کو نقصان پہنچانے کی بجائے فائدہ پہنچاتے لیکن آپ ایک قبائلی وارلارڈ ہی ثابت ہوئے۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ امریکی پابندی کی مناسبت سے بلوچ قومی تنظیموں کے اتحاد سے لاتعلقی کا اظہار اور مزید الزامات جن میں صحافیوں پر حملوں کی بات کرنا۔
یہ ایسا ہی ہے کہ بیگناہ پنجابیوں کے قتل یا محنت کشوں کے قتل کی بات کرنا، یہ ایک قومی رہبری کے دعویدار فرد کی ذہنی اپروچ ہے کہ وہ واقعات میں علت و معلول کو بیان کیے بغیر ہی الزام لگا رہا ہے، بلوچ قومی تنظیمیں اپنی کاروائیوں کو قبول کرتے وقت ان کے وضاحت بھی کرتی ہیں لیکن اس کے باوجود اگر کوئی سمجھتا ہے کہ ایک صحافی صرف صحافی ہی ہوسکتا ہے ریاست کا نمائندہ نہیں تو اس کی ذہنیت پر شک ہوگا کیونکہ ریاست کے ایجنٹ مختلف صورتوں میں ہوتے ہیں اور قومی تنظیموں کو مکمل اختیار ہے کہ وہ مکمل تحقیق کے بعد کوئی بھی سخت اقدام اٹھا سکتی ہیں۔ ان کے کاروائیوں پر بغیر کسی ٹھوس شواہد کے الزامات لگانا ریاست کا کام آسان کرنے کے علاوہ کچھ نہیں۔

“براس” اتحاد سے لاتعلقی پر یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ بلوچ تحریک میں اتحاد کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی مطلق العنان سوچ تھی اور ایک دورانیے تک انتشار و تقسیم در تقسیم کے پیچھے کارفرما یہی مقصد تھا کہ اتحاد کے لیے ماحول سازگار نہ ہو۔ بلوچ تنظیموں کی اتحاد نے جہاں بلوچ قوم کو نئی امید دی وہی یہ ریاست کے لیے بھی درد سر کا باعث بنی لیکن عجیب بات ہے کہ بلوچ تحریک آزادی کی رہبری کا دعوی کرنے والے بھی بلوچ تنظیموں کے اتحاد سے خائف ہیں کیونکہ اس اتحاد کی بنیاد کوئی شخصی اختیار نہیں بلکہ تنظیمی ہے جو مطلق العنان سوچ کو گوارا نہیں۔ اپنی انا کی تسکین کے لیے فرد واحد نے بلوچ تحریک کو ناقابل تلافی نقصانات پہنچائے اور اب وہ تمام کوتاہیوں و غلطیوں کا الزام ان جہدکاروں پر لگارہے ہیں جو تحریک کو عملی طور پر برقرار رکھ رہے ہیں اور حتی کے شہدا تک کو نہیں بخشا گیا۔

آخری تجزیہ میں فرد واحد اور ان کا سرکل ایک رجعتی گروپ بن چکا ہے جو اب کسی بھی قسم کے مثبت کردار ادا کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوچکے ہیں اور اب ان کا کام یہی ہوگا کہ کس طرح بلوچ حقیقی جہدکاروں کے لیے مشکلات پیدا کئے جائیں اور ایسا دانستہ طور پر کیا جارہا ہے۔ چین کی جانب سے جب یہ دعوی کیا گیا کہ وہ کسی بلوچ گروہ کے ساتھ بات چیت کررہی ہے تو اس پر آزاد صاحب کے علاوہ باقی تمام تنظیموں نے لاتعلقی کا اظہار کیا تھا لیکن آزاد صاحب نے اس کے بعد چین کے خلاف بلوچ جہدکاروں کی کاروائیوں سے لاتعلقی کا اظہار کیا جو اس بات کی غمازی کررہا ہے کہ یہ سب کچھ شعوری طور پر کیا جارہا ہے۔
لیکن بلوچ جہدکاروں نے اپنے منزل کا تعین کیا ہے اور اب جب تنظیمیں قبائلی شخصیات کے رجعتی پالیسیوں سے نجات پاچکی ہیں اور اداروں کی بنیاد پر مستحکم ہورہی ہیں تو ایسے میں یقینا بلوچ قومی تنظیمیں بلوچ قومی تحریک کو مزید مستحکم کرنے میں کامیاب ہونگے اور جہاں تک رہی فرد واحد کی مطلق العنانیت کی بات تو ان کا کردار قومی تحریک میں اپنی طبعی موت کی جانب قدم بڑھا چکی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔