سمندر کنارے ناریل کے درخت کے بجائے کجھور کے درخت لگائے جارہے ہیں۔
گوادر سے تعلق رکھنے والے ادیب عین قادر نے سوشل میڈیا کے ویب سائٹ فیس بک پر لکھا کہ ہماری ترقی کا ماڈل بھی نقلی ہے ،سمندر کنارے جہاں ناریل لگانے چاہیے تھے وہاں کجھور کے درخت لگائے جا رہے ہیں۔
انہوں نے لکھا کہ اس سے قبل جی ڈی اے اور ایک این جی او نے اسی طرح بھاری رقم خرچ کرکے سمندر کنارے میرین ڈرائیو کے ساتھ ساتھ بھبر کے درخت لگانے کے ایک منصوبے پر کام کیا تھا جو نامعلوم وجوہات کی بناء پر ناکام ہوا تاہم اُس منصوبے پر مختص رقم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ٹھیکیدار کو وہ رقم وصول ہوئی۔
سمندر کنارے کجھور لگانے کا مطلب ہے ہرسال ان کو پانی فراہم کرنے کے لیے لاکھوں روپے اضافی رقم خرچ کر کے انہیں زندہ رکھنے کی کوشش کی جائے کیونکہ انہیں زندہ رکھنے کے لیے پانی کی ضرورت ہوتی ہے اور پانی فراہم کرنے کے لیے سرکاری یا نجی ٹینکر استعمال کرنے پڑتے ہیں جس پر سالانہ بھاری رقم خرچ ہوتی ہے ۔
آگے عین قادر نے مزید لکھا کہ اس طرح چند سال بعد آپ کو ہر ایک کھجور کا درخت کروڑوں روپے میں پڑجائے گا، ایسا ہی ایک منصوبے پر گوادر پورٹ اتھارٹی نے بھی کام کیا ہے اب تک ان پر بھاری رقوم خرچ کرتا چلا آ رہا ہے، اسی طرح ہی کے ایک منصوبے پر 1993-94 میں گوادر فش ہاربر کم منی پورٹ نے کام تھا جس پر تب لاکھوں روپے اخراجات آئے تھے لیکن روپے موجودہ قیمت کے حساب سے اگر پرکھا جائے تو وہ بھی کروڑوں روپے کی بربادی کی ایک داستان کے علاوہ اور کچھ ثابت نہیں ہوئی۔
انہوں نے اپنے تحریر میں مزید لکھا ہے کہ ہمارے ماہرین کو چاہیے کہ سمندر کنارے کم از کم ایسے درخت لگانے سے پرہیز کریں جن پر ہر سال بھاری اخراجات کرنے پڑتے ہیں ، ایسے درخت لگانے کے منصوبوں پر کام کریں جن کی زندگی کے لیے سمندری ماحول موزوں ہوتی ہے، اور وہ اپنا خوراک خود تلاش کرسکتے ہیں اور تاحیات ان پر اخراجات کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے، اگر سمندری ماحولیات اور ساحلی پودوں اور درختوں کے بارے میں آگاہی نہیں ہے تو برائے کرم بنگلہ دیش، سری لنکا، مال دیب، انڈونیشیا، ملیشیا اور افریقہ کے ساحلی علاقوں کا بذریعہ انٹرنیٹ دورہ کریں یہ وہ علاقے ہیں جن کا موسم ہمارے علاقوں کی موسم سے کافی ملتا ہے۔