کچھ بھی نہیں اور بہت کچھ – تحریر: میار بلوچ

556

کچھ بھی نہیں اور بہت کچھ

تحریر: میار بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

‎کسی بھی شئے کی اہمیت و قیمت اس وقت ہی بڑھتی ہے، جب اس کی ڈیمانڈ یا مانگ میں اضافہ ہوتا ہے۔ سبزی منڈیوں میں اکثر ہی وہ سبزیاں غائب رہتی ہیں جن کی لوگ زیادہ ڈیمانڈ کرتے ہیں اور پھر اچانک سے مہنگے داموں خریدنے، لوگ سب سے پہلے صف میں آکر کھڑے ہوجاتے ہیں کیونکہ جب لوگوں کی مانگ بڑھتی ہے تو قیمت کی کوئی حیثیت نہیں رہتی۔

‎اب اسی مثال کو انسانی زندگی کے حوالے سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں، دنیا میں ہزاروں سالوں سے کتنے لوگ آئے اور گئے ہونگے اُن میں ہم کتنے ناموں اور کرداروں کو کہانیوں کو جانتے ہیں؟ مذہبی حوالے سے دیکھیں تو قرآن مجید کے مطابق مذہب کے پھیلاؤ میں لاکھوں لوگوں نے مخلتف ادوار میں کردار ادا کیا تھا، پھر بھی یاد صرف مٹھی بھر لوگ ہی رہتے ہیں اور مثالیں بھی انہی کی دی جاتی ہیں۔ ٹھیک اسی طرح سیاسی، علمی، جنگی و سائنسی میدان میں بھی وہی نام زندہ رہتے ہیں یا ہیں جنہوں نے اپنے میدان میں عمل کچھ انوکھا کیا ہو یا پھر ایک نظریہ پیش کیا ہو، جو پہلے کبھی فراہم نہ کی گئی ہو یا جس کے متعلق سوچنا بھی عجیب یا ناممکن سا لگتا ہو۔

‎سوچیئے! اگر اپنی بات پر سقراط کھڑے نہ رہتے سوال کرنے اور سچ کہنے کی بجائے معافی مانگ کر اپنی زندگی بچا لیتے تو کیا آج آپ سقراط سے واقفیت رکھتے؟

‎اگر امام حسین بجائے صبر و استقامت کے یزید کے سامنے سجدہ ریز ہوکر حق و باطل کی لڑائی میں سچ کو درگزر کرکے صرف اپنے اور اپنے اہل و عیال کی فکر کرتے تو کیا آج تک نام حسین صبر، استقامت، سچائی اور ثابت قدمی کی مثال ہوتا؟

‎اگر آئزک نیوٹن گرتے ہوئے سیب کو دیکھ کر سوچنے کے بجائے ایک عام سے انسان کی طرح اس سیب کو اٹھاکر کھا لیتے تو کیا سائنس کی دنیا میں انکا اتنا بڑا نام باقی رہتا؟

‎اگر ایرنیسٹو چی گویرا اُس فوجی افسر کو یہ کہنے کے بجائے کہ (میں جانتا ہوں تم مجھے مارنے آئے ہو، گولی چلاو بزدل، تم صرف ایک انسان کو مار رہے ہو) ایسا کہتے مجھ پر رحم کرو مجھے مت مارو اگر چاہو تو میں تمہارے حق میں اور اپنی جدوجہد کے خلاف بیان دے سکتا ہوں۔ تو آج وہ آدرشی انقلابی رہنما کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک بزدل کی حیثیت سے پہچانے جاتے۔

‎اوپر دیئے گئے مثالوں کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جب آپ کچھ نہیں تھے تو دنیا آپ کی اہمیت، حیثیت و خدوخال سے ناواقف تھی وہ آپ کو صرف اس لئے اگنور یا درگذر کررہی تھی کہ شائد آپ ایک طاقت یا قوت نہ ہوں اور آپ اپنے حریفوں کے خلاف اس طرح سے مزاحمت کرنے کی صلاحیت نہ رکھتے ہوں۔ مگر جس طرح سے بلوچ قومی سرمچاروں مجید برگیڈ کے جانثاروں نے دشمن کو کاری ضرب لگائیں ہیں، اس سے نہ صرف دشمن بلکہ باقی دنیا بھی حیران اور پریشان ہوگئی ہے کہ کل تک جن لوگوں کو ہم صرف یہ سوچ کر مائنس کررہے تھے کہ یہ لوگ صرف اور صرف لو لیول انسرجنسی تک ہی محدود ہیں آج انہوں نے چین جیسے سامراج کو بھی گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا ہے۔

‎آج بلوچ قومی آزادی کی جدوجہد کے سامنے یقیناً کافی مشکلات ہیں، جن میں سرفہرست دوست نما دشمنوں کی سازشیں، تحریک میں انتشارپھیلانے کی کوششیں اور عوام کو گمراہ کرنے کی خاطر انتہائی غلیظ ترین پروپیگنڈہ تک کرنا شامل ہے۔ ایسے عوامل یقینی طور پر خود کو تحریک کا حقیقی وارث ظاہر کرنے کی تگ و دو میں لگے رہتے ہیں لیکن پس پردہ انکے ارادے انکا موقف اور انکی سوچ بلکل ویسی ہی ہوتی ہے جیسا کہ قابض ریاست آپ کے خلاف سوچ رہا ہوتا ہے۔

اب اس سوچ کی مماثلت کے پیچھے کیا راز فرما ہوسکتے ہیں، وہ تو ہمیں اپنی دل و دماغ کھول کر سوچنے پرکھنے اور تحقیق کرنے کے بعد ہی پتا چل سکتا ہے۔

‎لیکن ان مشکلات سے بڑھکر جن مشکلات کو دیکھا جارہا ہے، سمجھا جارہا ہے یا بعض جگہوں پر نشاندہی بھی کی جارہی ہے وہ بلوچ قومی تحریک کے حوالے سے ایک منظم عالمی سطح پر سفارتکاری کی ناکامی ہے۔ جس کی بنیادی وجوہات میں سے سب اہم وجہ بھی دوست نما دشمنوں کی کارستانیاں ہیں۔ لیکن کیا ہم صرف انہیں ہی قصور وار ٹہرا کر اپنی ذمہ داریوں سے بری الزمہ ہوسکتے ہیں۔ کسی بھی صورت میں نہیں، ٹھیک ہے کل تک آپ میں ہم آہنگی تھی حالات کچھ اور تھے آپ بھروسہ کررہے تھے لیکن آج وقت آپ سے مطالبہ کررہا ہے آپ کے سامنے دنیا کھل کر آئی ہے۔ آپ اسے موقع کہیں، چیلنج کہیں یا عالمی سازش، تینوں صورتوں میں آپکی اولین ترجیح ہی یہی ہونی چاہیئے کہ آپ اپنے موقف کو اپنے مسئلے کو سمجھانے کی خاطر متعلقہ ممالک اور اداروں سے رابطہ کریں۔

‎کچھ لوگ یقیناً یہ بھی سمجھ لینگے اور ایسا کہیں گے کہ کیا کوئی مزاق ہے، امریکہ تک پہنچنا، تو انکے لیئے عرض یہ ہے آپ مت جائیں وہ خود آچُکے ہیں، وہ خود آپ کو پہچان رہے ہیں۔ اب بس اتنا کیجئے اپنی بات کو واضح اور شفاف انداز میں رکھنے کی صلاحیت پیدا کیجئے۔ وہ کیا سننا چاہتے ہیں، یہ آپکا مسئلہ نہیں ہونا چاہیئے بلکہ آپ کو کہنا کیا ہے، یہ اہم ترین پہلو ہونا چاہیئے۔ یقیناً ظاہری دنیا کے دستور میں تمام تر کام قانونی طور پر کیئے جاتے ہیں لیکن ایک دنیا ایسی بھی ہے جو صرف پرچھائیوں سی ہوتی ہے۔ جہاں ہر ایک بات کلاسیفائڈ اور ہر ایک انفارمیشن کارآمد ثابت ہوتی ہے۔ جہاں آپکو دہشتگرد نہیں بلکہ مزاحمت کار سمجھا جاتا ہے، جہاں پاکستان کی مکاری چین کی عالمی سازشوں پر نظر رکھی جاتی ہے، جہاں وقت زوالی کا وقت ہی نہیں وہاں جانے سے پہلے وہاں پہنچنے سے قبل یہ فیصلہ بھی ضرور کرنا ہوگا کہ اس اقدام کے بعد سے پیدا ہونے والی تمام تر صورتحال کی خاطر خود کو تیار رکھنا ہے۔ ہوسکتا ہے آپ کامیاب ہوجائیں لیکن یہ بھی ہوسکتا ہے آپ کی سوچ کے برخلاف عمل ہو اور آپ کو دیوار سے لگادیا جائے یہاں تک کہ آپ کے ساتھیوں کو انتہائی درجے کا نقصان پہنچانے کی کوشش کی جائے۔ لیکن کیا ہم نقصان میں نہیں جی رہے، کیا ہم دیوار سے نہیں لگائے گئے۔

‎اس کے باوجود بھی آج جتنا کام ہوا ہے، جتنا نام ہوا ہے، جس قدر ہم اونچے ہوئے ہیں، جہاں ہماری بات پہنچی ہے، اس جگہ اور اس مقام پر جذباتیت، ضد، حسد، نمود و نمائش، مقابلہ بازی اور پسند و ناپسند جیسی چیزوں کی گنجائش بلکل بھی نہیں رہتی بلکہ ایماندارانہ طور پر اپنے کام پر فوکس کرکے اپنی متعین کردہ منزل تک پہنچنے کی خاطر جدوجہد کرکے ہی جنرل اسلم بلوچ و مجید برگیڈ کے فدائین کے قربانیوں کا شاید ایک فیصد حق ادا کرسکیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔