کوئٹہ پولیس نے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ کو نوٹس ہذا کے تحت سخت کاروائی کی دھمکی دی ہے۔
ماما قدیر بلوچ گذشتہ ایک دہائی کے عرصے سے بلوچستان سے جبری طور پر لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز تنظیم کے تحت کوئٹہ پریس کلب کے سامنے علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ میں بیٹھ کر احتجاج کررہا ہے جہاں ان کے ہمراہ بلوچستان کے مختلف علاقوں سے لاپتہ افراد کے لواحقین آکر اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے سمیت اپنے پیاروں کے کوائف تنظیم کے پاس جمع کرتے ہیں۔
پولیس تھانہ سول لائن کوئٹہ کے اسٹیشن آفیسر کے دستخط کے ساتھ ماما قدیر بلوچ کو ایک نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ آپ نے پریس کلب کے سامنے اپنے مطالبات کے حق میں احتجاجی کیمپ لگایا ہوا ہے جس میں دن بھر لوگوں کا ہجوم رہتا ہے اور اب ضلعی انتظامیہ کی جانب سے دفعہ 144 نافذ کیا جاچکا ہے جس کے تحت ہجوم، جلسہ جلوس، ریلی اور روڈ بلاکنگ پر سخت قسم کی پابندی عائد کی گئی ہے۔
نوٹس میں ماما قدیر کو کہا گیا ہے کہ آپ کو کسی قسم کی ریلی، روڈ بلاکنگ اور جلسہ جلوس کی اجازت نہیں ہوگی تاہم احتجاجی کیمپ کے لیے آپ کو این او سی حاصل کرنا ہوگا۔
نوٹس میں ماما قدیر کو سخت کاروائی کی دھمکی دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ این او سی نہ لانے کی صورت میں آپ کا کیمپ غیر قانونی تصور کیا جائے گا اور خلاف ورزی کرنے پر آپ کے خلاف سخت سے سخت قانونی کاروائی عمل میں لائی جاسکتی ہے۔
یاد رہے ماما قدیر بلوچ کی قیادت میں لاپتہ افراد کے لواحقین احتجاجی کیمپ میں شرکت کرنے سمیت پریس کلب کے سامنے مظاہروں اور شہر میں ریلی نکال کر اپنا احتجاج ریکارڈ کرتے رہے ہیں جبکہ مذکورہ کیمپ کو جلانے کے واقعات بھی پیش آچکے ہیں۔
علاوہ ازیں کوئٹہ پریس کلب کے سامنے بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کی قیادت میں میڈیکل کالجوں کے طلبہ اور انجینئرز گرینڈ الائنس بلوچستان کے احتجاجی کیمپ بھی قائم ہے۔